میں نہ پائی جاتی ہو۔اس كا سبب یہ ہے کہ قرآن،تشریع کی اصل اور اس کا پہلا مصدر ہے،لہٰذا اگر قرآن میں کسی حکم پر نص موجود ہو تو مجتہد اس کی اتباع کرتا ہے،لیکن اگر قرآن میں کسی معاملہ یا واقعہ کے متعلّق حکم پر نص موجود نہ ہو تو وہ سنت کی طرف رجوع کرتا ہے،پس اگر اس میں وہ حکم مل جائے تو اس کی اتباع کی جاتی ہے۔‘‘
اس بارے میں اور بھی بہت سے لائق احترام علماء کے اقتباسات پیش کئے جاسکتے ہیں۔جن کا خلاصہ یہ ہے کہ سنت قرآن کی بیان وتفسیر ہونے کی بناء پر بلحاظِ اعتبار قرآن سے فروتر ہوئی۔لیکن یہ دعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ محقق علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بیان و مبین مساوی المرتبت ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات مبین چیز مجمل پر مقدّم ہوتی ہے۔
ذیل میں اس کی تائید میں چند شواہد پیش کیے جاتے ہیں:ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى()إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾[1]
کہ(رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی خواہش سے نہیں کہتے بلکہ وہ تو صرف وحی ہوتا ہے جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے۔
نیز فرمایا:
﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ﴾[2]
كہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
نیز فرمایا:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾[3]
كہ جو کچھ بھی رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔
نیز فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا()أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا()وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾[4]
كہ جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ عزو جل اور اس کے رسولوں کے ساتھ اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے مابین فرق رکھیں اور کہتے ہیں کہ ہم کچھ پر تو ایمان لاتے ہیں اور کچھ کے منکر ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ بین بین ایک راہ اخذ کریں۔ایسے لوگ
|