مزید فرماتے ہیں:
"من المأخذ ما هو أصل وإمام،ومنها ما هو كالفرع والتّبع. أما الإمام والأساس فليس إلا القرآن نفسه،وأمّا ما هو كالتّبع والفرع فذلك ثلاثة:ما تلقّته علماء الأمة من الأحاديث النبوية،وما ثبت واجتمعت الأمة عليه من أحوال الأمم،وما استحفظ من الكتب المنزلة على الأنبياء. ولولا تطرّق الظن والشبهة إلى الأحاديث والتاريخ،والكتب المنزلة من قبل لما جعلناها كالفرع،بل كان كل ذلك أصلا ثابتا يعضد بعضه بعضا من غير مخالفة. "[1]
کہ بعض ماخذ اصل واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی۔اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے۔اس کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں:وہ احادیثِ نبویہ جن کو علمائے امت نے قبول کیا،قوموں کے ثابت شدہ ومتفق علیہ حالات اور گذشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں۔اگر ان تینوں میں ظن اور شبہ کو دخل نہ ہوتا تو ہم ان کو فرع کے درجہ میں نہ رکھتے بلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرار پاتی اور سب بلا اختلاف ایک دوسرے کی تائید کرتے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
"واليأس من القرآن والتمسّك بالأحاديث وهن وفتح لأبواب الأكاذيب ولا يتمّ الحجة عليهم فليعتصم بالقرآن وبنظمه ويشيّده بالسنة والخبر الصّحيح والعقل الصّريح. "[2]
کہ قرآن سے نا اُمیدی اور تمسک بالحدیث نے لوگوں کو سہل انگار بنا دیا اور دروغ گوئی کا دروازہ کھول دیا اور دلیل ان کے لئے ناکافی ہے۔پس قرآن اور اس کے نظم کو پوری قوت سے پکڑے رہنا چاہئے اور اس کے بعد سنت،خبر صحیح اور عقل صریح سے اس کو مضبوط بنانا چاہئے۔
معروف مفسر قرآن ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ الله فرماتے ہیں:
"لا شك أن السّنة في المرتبة الثّانية من القرآن من جهة الاحتجاج بها والرّجوع إليها لاستنباط الأحكام الشّرعية بحيث إن المجتهد لا يرجع إلى السّنة للبحث عن واقعة إلا إذا لم يجد في القرآن ما أراد معرفة حكمه لأن القرآن أصل التّشريع ومصدره الأوّل،فإذا نصّ على حكم اتّبع وإذا لم ينصّ على حكم الواقعة رجع إلى السّنة فإن وجد فيها حكم اتّبع"[3]
’’بے شک شرعی احکام کے استنباط کیلئے احتجاج اور رجوع کے اعتبار سے سنت قرآن سے دوسرے درجہ میں ہے۔کیونکہ کوئی مجتہد کسی واقعہ کے متعلّق بحث و تمحیص میں سنت کی طرف اس وقت تک رجوع نہیں کرتا جب تک کہ مطلوبہ حکم کی معرفت قرآن
|