Maktaba Wahhabi

371 - 535
حنبل رحمہ اللہ کے دو متضاد اقوال میں سے ایک قول کے مطابق بھی یہ مقولہ ’منکر‘ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ’جسارت‘ کے زمره میں آتا ہے۔امام صاحب رحمہ اللہ کے علاوہ باقی تمام محدثین نے تو ان اقوال کی صداقت پر اس قدر اعتماد کیا ہے کہ بعض نے اپنی کتب میں مستقل ابواب ہی اس عنوان سے قائم کئے ہیں:(باب السنّة قاضية على کتاب اللّٰه)[1] مقولہ(السنّة قاضية على الکتاب،لیس الکتاب قاضیًا على السنّة)کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیات دو یا دو سے زیادہ اُمور و مطالب کی محتمل ہوتی ہیں،لیکن سنت ایسی تمام آیات کے جملہ محتملات میں سے کسی ایک محتمل کی تعبیر کر کے اس آیت کا مقصد و مطلب متعین کرتی ہے۔اس چیز پر استدلال عموماً ان احادیث سے کیا جاتا ہے جن سے ظواہر قرآن کے خلاف مطلق کو مقید اور عام کو خاص کیا جاتا ہے۔ظواہر کتاب کے مقتضیٰ کو یوں ترک کر کے سنت کی طرف رجوع کرنے سے کتاب اللہ پر سنت کی تقدیم لازم نہیں آتی بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو چیز سنت میں معتبر ہے وہی کتاب اللہ کی بھی اصل منشاء و مراد ہے۔پس اس قول کا اصل محرک اصول قرآنیہ کی توضیح میں سنت کا عظیم اثر و کردار ٹھہرا۔[2] ذیل میں اس قول کے صحیح مطلب و منشاء کی وضاحت کے لئے چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:‏ ارشاد الٰہی ہے:﴿أَقِيمُوا الصَّلَاةَ[3] کہ نماز قائم کرو۔لیکن ’صلوٰۃ‘ کے معنی کی تعیین میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے۔کوئی شخص کہے گا کہ ’صلوٰۃ‘ کے معنی دعاء وتسبیح کے ہیں،کوئی درود و رحمت بیان کرے گا۔محمد احمد بٹلا جیسا کوئی شخص اس کے معنی ’پریڈ‘ بھی بیان کر سکتا ہے۔کوئی ’تجدّد پسند شخص‘ اسے نظامِ ربوبیت یا اشتراکیت سے تعبیر کرے گا۔کوئی ’صلوٰۃ‘ سے مراد محض کولہوں کو ہلانا بتائے گا،اور کوئی شخص یہ کہے گا کہ ’صلوٰۃ‘ کے صحیح معنی وہ کیفیتِ اعمال ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکما و عملاً یوں ظاہر فرمائی ہے:((صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي))[4]اور مسلمانوں کے ہر طبقہ میں نسلاً بعد نسل معروف،مشہود اور معمول بہ ہے۔ اسی طرح آيتِ كریمہ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا[5]کہ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورتوں کے ہاتھ کاٹ دو۔اگر اس آیت کی تفسیر میں کوئی شخص یہ کہے کہ یہاں ہاتھ کاٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جرأت نہ ہونے دو کہ وہ چوری کر سکیں۔انکے تمام وسائل ختم کر دو،جو امراء اور با اثر لوگ انکے دست و بازو اور پناہ دہندہ بنے ہوئے ہوں انہیں ان سے جدا کر دو اور آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ فی الواقع ان کے ہاتھ ان کے تن سے جدا کر دو۔تو ظاہر ہے کہ یہ تفسیر قرآن کریم کی صحیح ترجمانی نہ ہو گی کیونکہ حدیث میں ان آیات کی عملی تفسیر اور واضح احکام موجود ہیں،لہٰذا اگر ہر شخص کو قرآن کے ان الفاظ کی من مانی تاویلات کرنے کی چھوٹ دے دی جائے تو قرآن ا ختلافات کا ایک ناقابلِ فہم اور ناقابلِ حل معمہ بن کر رہ جائیگا۔
Flag Counter