مولانا اصلاحی رحمہ اللہ امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کے اس قول پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جو لوگ احادیث و آثار کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ان کو خود قرآن پر بھی حاکم بنا دیتے ہیں،وہ نہ تو قرآن کا درجہ پہچانتے ہیں،نہ حدیث کا۔برعکس اس کے جو لوگ احادیث و آثار کو سرے سے حجت ہی نہیں مانتے وہ اپنے آپ کو اس روشنی ہی سے محروم کر لیتے ہیں جو قرآن کے بعد سب سے زیادہ قیمتی روشنی ہے۔‘‘[1]
یہی بات آں محترم ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں:
’’جو لوگ احادیث و آثار کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ان کو خود قرآن پر حاکم بنا دیتے ہیں،وہ درحقیقت قرآن کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور احادیث کی بھی کوئی شان نہیں بڑھاتے۔اس کے برعکس جو لوگ احادیث کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں وہ اس روشنی ہی سے محروم ہو جاتے ہیں جو قرآن مجید کے بہت سے اجمالات کے کھولنے میں سب سے زیادہ مددگار ہو سکتی ہے۔‘‘[2]
حالانکہ بقول حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ سنت،محتملاتِ قرآن کا فیصلہ بلکہ ان کی تعیین کرتی ہے اور قرآن کی مراد و منشاء کو بیان کرتی ہے۔اسکی مدد کے بغیر کتاب اللہ کے اصلی معانی کو سمجھنا محال ہے۔
حافظ المغرب ابن عبد البر رحمہ اللہ(463ھ)کے الفاظ میں اس قول کا مطلب یہ ہے:
"یرید أنها تقضي عليه وتبین المراد منه. " [3]
کہ وه یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کتاب اللہ سے فیصلے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کئے جائیں تاکہ مراد کھل کر واضح ہو جائے۔
نواب صدیق الحسن خان بھوپالی رحمہ اللہ(1307ھ)فرماتے ہیں:
’’کتاب اللہ کا بیان سنت سے طلب کرنا چاہئے۔اس کے مجمل کے مبین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،اسی لئے بعض اہل علم کا قول ہے کہ جب قرآن کریم اور حدیث میں بظاہر تعارض واقع ہو تو حدیث کو مقدم کرنا واجب ہے کیونکہ آیتِ مبارکہ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجمل ہے اور حدیث مبین،اور مبین چیز مجمل پر مقدم ہوتی ہے۔‘‘[4]
اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ احادیث کو قرآن پر قاضی کہہ دینے سے بعض لوگوں نے یہ غلط مطلب سمجھ لیا ہے کہ گویا قرآن احادیث کی عدالت کے کسی کٹہرے میں ایک بے بس و لاچار مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہے اور حدیث کو بحیثیت قاضی اس کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔اگر فیصلہ اس کے حق میں ہوا تو اس کو قبول کیا جائے گا،اور اگر اسکے خلاف ہوا تو اس کو رد کر دیا جائے گا۔
حالانکہ امام یحییٰ بن ابی کثیر،امام مکحول اور امام اوزاعی رحمہ اللہ وغیرہ کے ہم عصر یا بعد میں آنے والے جتنے بھی مشہور ائمہ حدیث گزرے ہیں ان میں سے کسی سے بھی ان حضرات کے اقوال پراعتراض منقول نہیں ہے۔محدثین میں سے صرف امام احمد بن
|