Maktaba Wahhabi

369 - 535
لقلّة الخطر فيها وفسّروا القرآن بها،حتى أن أصبح زمام القرآن بيد الحديث فقلّ اعتناءهم بفهم معاني القرآن. " [1] کہ ان میں بعض وہ لوگ ہیں جو احادیث کو نقد ونظر کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ان پر مطمئن ہوگئے،جیسا کہ اکثر اصحابِ روایات کا مسلک ہے۔ان کا خیال تھا کہ کلامِ نبی لا محالہ قرآن کے اور کلام صحابہ کلام نبی کے موافق ہوگا۔اس کے علاوہ انہوں نے احادیث میں کافی وسعت پائی اس لئے انہوں نے اسی کو اصل قرار دے لیا کہ اس میں خطرات کم تھے اور اسی کے مطابق قرآن کی تفسیر کی،یہاں تک کہ قرآن کی زمام حدیث کے ہاتھ میں چلی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معانی قرآن کے فہم سے ان کی دلچسپی بہت کم ہوگئی۔ قرآن وسنت کے ظاہری تعارض کی صورت میں علمائے اُمت کے نزدیک حل تو یہ ہے کہ جس طرح دو آیات میں ظاہری اختلاف کی صورت میں فوراً ترجیح کا فیصلہ نہیں کر لیا جاتا،بلکہ دونوں آیات میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،بالکل اسی طرح قرآن وحدیث دونوں میں مزید غور کیا جائے،تطبیق دینے کی کوشش کی جائے اور قرآن پاک کے عمومات اور مطلقات کی تخصیص وتقیید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں کی جائے،لیکن مکتبہ فراہی کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ قرآن کی روشنی میں حدیث پر غور کر کے دونوں میں توافق کی صورت پیدا کی جائے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: "وكان عليهم أن يأولوا الأحاديث إلى القرآن،فإني رأيت كم من روايات متضادة حسب الظّاهر،توافقت حين أوّلناه إلى القرآن،فإن القرآن كالمركز وإليه ترجع الأحاديث من جهات مختلفة." [2] كہ ان پر لازم تھا کہ وہ احادیث کی تاویل قرآن کی روشنی میں کرتے،اس لئے کہ کتنی ہی روایتیں ہیں جو بظاہر متضاد معلوم ہوتی ہیں،لیکن جب ہم قرآن کی روشنی میں ان کی تاویل کرتے ہیں تو دونوں میں موافقت پیدا ہو جاتی ہے۔پس قرآن کی حیثیت مرکز کی ہے اور احادیث مختلف جہات سے اس کی طرف راجع ہوتی ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوشش کے باوجود قرآن وحدیث میں مطابقت کی کوئی صورت نہ نکل سکے تو اس وقت قرآن ہی کو ترجیح دی جائے گی،اس لئے کہ وہ قطعی اور ثابت ہے۔جیسے کہ دو احادیث میں تعارض کی صورت میں اثبت روایت کو لے لیا جاتا ہے۔مولانا فرماتے ہیں: "وإذا تعارض حديثان فيأخذون بأثبت،فلِمَ لا يُفعل كذلك إذا تعارض القرآنُ والحديث،أو يوافقون بين المتعارضين إذا تساويا في السّند،والقرآن أوثق سندًا فلا بدّ أن يأول الأحاديث بالقرآن" [3] کہ جب دو حدیثوں میں تعارض ہوتا ہے تو جو صحیح وثابت ہوتی ہے اس کو لے لیا جاتا ہے۔تو جب قرآن وحدیث میں تعارض واقع ہو تو اس اصول کے مطابق کیوں عمل نہیں کیا جاتا ہے۔اسی طرح باعتبار سند دو مساوی حدیثوں میں موافقت پیدا کی جاتی ہے اور قرآن باعتبارِ سند زیادہ مضبوط اور قابلِ اعتماد ہے اس لئے ضروری ہے کہ احادیث کی تاویل قرآن کے مطابق کی جائے۔
Flag Counter