Maktaba Wahhabi

372 - 535
ظاہر ہے کہ ان تمام اختلافات کے حل کی نہایت مؤثر اور ممکن صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ ان تمام معانی میں سے صرف اس معنی کو ہی درست مانا جائے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔پس جب ا س بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے تو اس سے یہی نتیجہ اور مفہوم نکالا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل ہی(جو کہ سنت اور احادیث کے نام سے معروف ہے)اس بارے میں فیصلہ کن یاقاضی یا حاکم کی حیثیت رکھتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کے کون سے معنی صحیح اور منشاء الٰہی کے مطابق ہیں۔ یہ اس مقولہ کا صحیح مفہوم ہے،جس سے نہ اللہ تعالىٰ کی کتاب قرآن کریم کا ملزم ہونا لازم آتا ہے اور نہ ہی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر و استخفاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر بن ا لخطاب فرمایا کرتے تھے: "سیأتي قوم یجادلونکم بشبهات القرآن،فخذوهم بالسّنن فإن أصحاب السّنن أعلم بکتاب اللّٰه"[1] کہ عنقریب تمہارے پاس ایک جماعت آئے گی جو قرآنی شبہات کو لے کر تم سے جھگڑا کرے گی۔تم ان کا مواخذہ سنت نبویہ سے کرنا کیونکہ سنتِ نبویہ کا علم رکھنے والے ہی کتاب اللہ کے مفہوم کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ گویا آپ کے نزدیک بھی قرآنی شبہات میں جدال کی صورت پیش آ جانے پر سنتِ نبوی کا درجہ قاضی کا تھا۔ کسی شخص نے ایک مرتبہ تابعی جلیل مطرف بن عبداللہ الشخیر رحمہ اللہ م87ھ سے کہا:لاتحدّثونا إلا بالقرآن کہ ہمیں قرآن کے سوا اور کچھ نہ سنایا کرو۔تو اُنہوں نے فرمایا: "واللّٰه ما نرید بالقرآن بدلًا ولکن نرید من هو أعلم بالقرآن منّا." یرید رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم [2] اللہ کی قسم!ہم قرآن کا بدل تلاش نہیں کرتے،بلکہ اپنے سے بڑھ کر قرآنِ کریم کے علم رکھنے والے کو چاہتے ہیں۔ان کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان تمام اقوال سے قرآن کریم کی توضیح میں سنت کے عظیم الشان کردار اور اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی پڑتی ہے،اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد خواہ کسی حکم قرآن کی تشریح میں ہو یا اس کے اجمال کی تفصیل اور وضاحت میں،بہرصورت اسے قاضی و ناطق سمجھا جائے گا۔لہٰذا امام یحییٰ بن ابی کثیر،مکحول اور اوزاعی رحمہم اللہ کے مذکورہ بالا اقوال سے ان کی جو مراد سمجھ میں آتی ہے وہ دراصل لوگوں کو ایک طرح کی تنبیہ ہے کہ قرآن کریم کے معانی و مطالب ’اعلم الخلق‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کون جانتا ہے ؟ نیز جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے وہ وحی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا،لہٰذا قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلّق خود کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں دیکھ لینا چاہئے کہ رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے؟ بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد لائقِ ترجیح ہے۔خود اللہ تعالىٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم فرمایا ہے کہ ہر معاملہ میں حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی فیصلہ کروایا جائے۔اہلِ علم میں سے کسی نے بھی اس بارے میں اختلاف رائے نہیں کیا ہے کہ سنت کے کسی فیصلہ اور حکم پر عمل کرنا اصلاً قرآن
Flag Counter