Maktaba Wahhabi

355 - 535
جو کھڑے،بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر خدا کو یاد کرتے رہتے اور آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور کرتے رہتے ہیں۔ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے پروردگار،تو نے یہ کارخانہ بےمقصد نہیں پیدا کیا ہے۔تو اس بات سےپاک ہے(کہ کوئی عبث کام کرے)سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک قادراور حکیم خداوند سے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک بے مقصد تخلیق کرے۔نیز یہ تخلیق بے مقصد ہو کیسے سکتی ہے جبکہ اس کے اندر اتنے عجائب موجود ہیں۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اشرف المخلوقات بھی ہو اور اس کا وجود بھی عبث ہو۔لہٰذا یہ لازم ہے کہ جزا اور فیصلے کا ایک دن آئے۔ایک سوچنے والا بندہ استدلال میں جب یہاں تک پہنچتا ہے تو پکار اٹھتا ہے ﴿سُبْحَانَكَ﴾تو پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے،کیونکہ اس کے سامنے رب کی عظمت،جلال،حکمت اور رحمت کی تمام صفات ہوتی ہیں۔پھر جب وہ رب کی رحمت کا تقاضا جزا کی صورت میں لازم سمجھتا ہے تو دعا کرتا ہے﴿سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ سورۃ آل عمران کے اس مقام کی نظیر حسبِ ذیل ہے: ﴿أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ[1] کہ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کے نظام اور ان چیزوں پر نگاہ نہیں کی جو خدا نے پیدا کی ہیں اور اس بات پر کہ کیا عجب کہ ان کی مدت قریب آ لگی ہو تو اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟ مطلب یہ ہے کہ کیا انہوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ اللہ عزو جل نے جو چیز بھی پیدا کی ہے وہ کسی حکمت و غایت کے لیے پیدا کی ہے۔اسی لیے وہ ایک خاص مدت تک ہی باقی رہتی ہے۔چنانچہ ہم رات اور دن کا نظام اور موسموں او رعمروں کا عرصہ دیکھتے ہیں۔اسی طرح ایک قوم ابھر تی اور دوسری رخصت ہو جاتی ہے،جیسا کہ فرمایا بھی ہے: ﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ[2] کہ اور ہر امت کیلئے ایک مقررہ مدت ہے تو جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی تونہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے،نہ آگے بڑھ سکیں گے۔ یعنی عین ممکن ہے کہ ان مخاطب مشرکین کی مقررہ مدت قریب آ لگی ہو۔پس تم نے دیکھا کہ عین ممکن ہے کہ آسمان اور زمین کی تخلیق کے مشاہدہ سے معاد کی یاد دہانی کا اشارہ یہاں واضح کر دیا جبکہ سورہ آل عمران کی آیت میں اس کو مخفی رکھا گیا تھا۔ اس مضمون کی ایک اور نظیر سورۂ ق میں موجود ہے۔فرمایا: ﴿بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ()أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ()قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ()بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ[3] کہ بلکہ ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی کے اندر سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک نہایت
Flag Counter