Maktaba Wahhabi

356 - 535
عجیب بات ہے۔کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔یہ لوٹایا جانا تو بہت بعید ہے۔ہم نے جان رکھا ہے جو کچھ زمین ان کے اندر سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس ایک محفوظ رکھنے والی کتاب بھی ہے۔بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا ہے جب کہ ان کے پاس آچکا ہے۔پس وہ ایک صریح تضاد فکر میں مبتلا ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ایک شدنی امر کے بارےمیں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔شدنی امر معاد اور جزا و سزا کا نظام ہے۔اس کو آگے کی آیات میں واضح کر دیا اور اس کے اثبات کے لیے دلیل بھی دی۔فرمایا: ﴿أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ()وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ()تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ[1] کہ کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا،کس طرح ہم نے ا س کو بنایا اور اس کو سنوارا اور کہیں اس میں کوئی رخنہ نہیں۔اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دئیے اور اس میں ہر قسم کی خوش منظر چیزیں اگائیں۔ہر متوجہ ہونے والے بندے کی بصیرت اور یاد دہانی کے لیے۔ مراد یہ ہے کہ رب کی قدرت اور حکمت کے یہ مظاہر اپنی تمام خوبیوں اور عظمتوں کے ساتھ ان بندوں کی آنکھیں کھولنے اور دل کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں جو صنعت کی مدد سے صانع تک پہنچنے کے لیے تیار رہتے اور اور اخلاقی پہلو سے اس کی رحمت پر ایمان لاتے ہیں۔پھر فرمایا: ﴿وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ()وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ()رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوجُ[2] کہ اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا جس سے ہم نے باغ بھی اگائے اور کاٹی جانے والی فصلیں بھی اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت بھی جن میں تہہ بہ تہہ خوشے لگتے ہیں بندوں کی روزی کے لیے۔اور ہم نے اس سے مردہ زمین کو زند ہ کر دیا۔اسی طرح مرنے کے بعد زمین سے نکلنا بھی ہوگا۔ دیکھو اس مقام پر آسمانوں و زمین کے دلائل کی تفصیل کر دی جبکہ پہلے اور دوسرے مقام پر اس کی طرف اشارہ کافی سمجھا گیا تھا۔اس کے برعکس ان دلائل پر غور و فکر اور صانع کی طرف جھکاؤ کا اس تیسرے مقام پر جو ذکر کیا ہے اس کی تفصیل پہلے مقام میں آئی ہے۔ ملتے جلتے مضامین جب مختلف مقامات پر سامنے آتے ہیں تو عقل ایک شبیہ سے دوسری شبیہ کی طرف منتقل ہوتی ہے اور آدمی اس چیز کا تصور کر لیتا ہے جو ایک موقع پر بیان نہیں ہوا لیکن دوسرے موقع پر بیان ہو جانے کے باعث اس کی یاد میں رہا۔قرآن مجید کے قصوں میں اس کی مثالیں بہت ہیں۔[3]
Flag Counter