Maktaba Wahhabi

343 - 535
القرائن والأحوال عند نزوله،ولما اختصّوا به من الفهم التام،والعلم الصحيح والعمل الصّالح. "[1] کہ جہاں تک تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کا معاملہ ہے تو امام سیوطی رحمہ اللہ ’اتقان فی علوم القرآن‘ میں فرماتے ہیں کہ علماء نے کہا ہے:جو شخص کتابِ عزیز کی تفسیر کرنا چاہے،اس کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے قرآن کی تفسیر قرآن سے کرے۔قرآن میں جو چیز ایک جگہ مجمل ہے وہی چیز دوسری جگہ شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ابن الجوزی رحمہ اللہ(597ھ)نے خاص اس عنوان پر ایک کتاب لکھی ہےجس میں قرآن کےان مطالب سےبحث کی ہے جو ایک جگہ مجمل ہیں اور دوسری جگہ مفصّل۔میں نے بھی مجمل کے باب میں اس کی بعض مثالوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔اگر قرآن سے تفسیر نہ ہو سکے تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے،کیونکہ سنت قرآن کی شارح اور مفسرہے ... اگر سنت سے بھی تفسیر نہ ہو سکے تو اقوال صحابہ کی طرف رجوع کیا جائے،وہ تفسیر کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں،کیونکہ وہ ان آیات کے نزول کے وقت تمام احوال وظروف سے واقف تھے،اور اس لئے بھی کہ وہ مکمل فہم،علم صحیح اور عمل صالح کے حامل تھے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کو اساسی حیثیت میں تسلیم کرتے ہیں،لیکن اس اصول تفسیر کے داخلی پس منظر میں اس کی جزئیات سے بحث کرتے ہوئے آیات کے سیاق وسباق،سورتوں کے نظم اور لغتِ عرب پر گہرا اعتماد کرتے ہیں۔نیز وہ اس کے بعد ہی دیگر نظائر سے استفادہ کرتے ہیں۔گویا ان کے نزدیک نظمِ قرآنی،لغتِ عربی اور دیگر نظائر قرآنی تفسیر قرآن کے داخلی اور بنیادی اُصولوں میں شامل ہیں،اور ان میں سب سے مقدّم درجہ نظمِ قرآن کا ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أجمع أهل التّأويل من السّلف إلى الخلف على أن القرآن يفسّر بعضه بعضا،وأنه أوثق تعويلا وأحسن تأويلا. فنقول كما أن القرآن يفسّر مطالب آياتها بعضها ببعض،فكذلك يدلّك على نظام مطالبها ومناسبتها،بما يأتيك بنظائره،فتكثر الشواهد على رباط أمر مع أمر. وبذلك يحثّك على التأمّل في جامع وصلة بينها،ثم يأتي عليه بأمثلة كثيرة،بعضها أوضح من بعض،حتى تدرج بك على ما كان أدقّ وأغمض. وهذا يستدعي تفصيلا وتمثيلا وسيأتيك جملة من هذا في مواضعه،وإنما قدّمت هذا الأصل الكلي من أصول الّتأويل وهو أكبر ما نعتمد عليه. "[2] کہ سلف سے خلف تک تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن کریم کا بعض حصّہ بعض کی تفسیر کرتا ہے،اور یہی سب سے مضبوط اور بہتر تفسیر ہوتی ہے۔ہمارا دعویٰ ہے کہ جس طرح قرآن اپنی آیات کا مفہوم دوسری آیات کے ذریعے کھولتا ہے اسی طرح وہ اپنے مطالب کے نظام اور ان کی مناسبتوں کی طرف بھی اپنے نظائر کے ذریعے رہنمائی کرتا ہے۔چنانچہ وہ ایک مفہوم کے دوسرے مفہوم کے ساتھ ربط پر بکثرت شواہد لاتا ہے اور ان کے ذریعے وہ ان مفاہیم کے درمیان جامع تعلّق پر غور کرنے کی راہ کھولتا ہے۔وہ یہی نہیں کرتا بلکہ اس تعلّق پر کئی مثالیں پیش کرتا ہے جن میں سے بعض مثالیں دوسری مثالوں سے واضح تر ہوتی ہیں۔اس طرح
Flag Counter