﴿أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ﴾[1]
کہ جیسے ایک گہرے سمندر کے اندر تاریکیاں ہوں،موج کے اوپر موج اٹھ رہی ہو،اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں،تاریکیوں پر تاریکیاں چھائی ہوئی ہوں،اگر اپنا ہاتھ بھی نکالے تو اس کو بھی نہ دیکھ پائے اور جس کو اللہ روشنی نہ بخشے تو اس کے لیے کوئی روشنی نہیں۔
یہاں نور سےمراد قرآن ہے جو رُشد وہدایت کا ذریعہ ہے۔اس طرح اگر دیکھا جائے تو کائنات کا ہر ذرّہ اپنی جگہ معجزہ اور رازِ سربستہ ہےاور قرآنِ مجید کی اہمیت انسان سے زیادہ ہے،کیونکہ انسان کا وجود بغیر کلامِ پاک کے بیکار ہے۔اسی لیے ہر زمانہ میں اہلِ علم اور اہلِ فکر نے قرآن کے اسرار و رموز تک پہنچنے کی کوشش کی ہےاور اپنے علم وبساط کے مطابق جو چیزیں ملیں ان کو دوسروں تک پہنچا دیا۔
قرآنِ مجید کا سب سے بڑا معجزہ یہی ہے کہ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور ان تک پہنچنے کی جتنی کوششیں کی جائیں گی،فکر وعلم کی نئی راہیں کھلتی جائیں گی۔کلامِ پاک کی تفسیر و تعبیر کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ان کوششوں کے نتیجہ میں جہاں بہت سے تشنہ نکات کی وضاحت ہوئی،وہاں کتابِ الٰہی سے متعلّق بہت سے علوم وجو د میں آئے،جن میں علم نظام القرآن بہت اہمیت کا حامل ہے جس پر تیسرے باب میں تفصیلی وضاحت ہوچکی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ہاں تفسیر قرآن کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کرتے ہیں،فرماتے ہیں:
"قالت العلماء قدیماً:إن القرآن يفسّر بعضه بعضا،وذلك بأنّ ذلك ظاهر جدّا. فإن القرآن يذكر الأمور بعبارات مختلفة مرّة إجمالا وأخرى تفصيلا. فما ترك في موضع ذكره في موضع آخر. وقد صرّح القرآن بهذه الصّفة الّتي فيه في غير موضع. فهذا أصل راسخ. "[2]
قدیم علماء کا قول ہے کہ قرآن کا بعض حصہ بعض کی تفسیر کرتا ہے،اور یہ بات بالکل ظاہر وباہر ہے۔قرآن کریم بہت سی چیزوں کو مختلف انداز واسالیب سے ذکر کرتا ہے،کبھی اجمال سے تو کبھی تفصیل سے۔کوئی چیز ایک جگہ چھوڑ دیتا ہے تو دوسری جگہ اُسے بیان کر دیتا ہے۔قرآنِ کریم کے متعدد مقامات پر اس اُصول کی صراحت موجود ہے۔یہ تفسیر قرآن کا ٹھوس اور واضح اصول ہے۔
اس سلسلے میں مولانا فراہی رحمہ اللہ سیوطی رحمہ اللہ کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"أما التفسير بالآيات،فقال العلامة السّيوطي في الإتقان:قال العلماء:من أراد تفسير الكتاب العزيز طلبه أوّلا من القرآن،فما أُجمِل منه في مكان فقد فسّر في موضع آخر،وما اختصر في مكان فقد بُسِط في موضع آخر منه،وقد ألّف ابن الجوزي رحمه اللّٰه كتابا فيما أجمل في القرآن في موضع وفسّر في موضع آخر منه،وأشرت إلى أمثلة منه في نوع المجمل،فإن أعياه ذلك طلبه من السّنة فإنها شارحة للقرآن وموضّحة له ... فإن لم يجده من السّنة رجع إلى أقوال الصّحابة فإنهم أدرى بذلك لما شاهدوه من
|