کہ اہل حبشہ کے ہاتھی والے دن،اس کے عجیب کرشموں میں سے یہ ہے کہ جتنا اس کو اٹھاتے تھے اتنا ہی وہ بیٹھا جاتا تھا۔ان کے آنکسں اس کی کمر اور پیٹ کے نیچے زخمی کررہے تھے اور انہوں نے اس کی سونڈ زخمی کرڈالی تھی۔انہوں نے گپتی کا کوڑا بنایا تھا،جب اس سے اس کومارتے تھے تو وہ اس کے سر کو زخمی کردیتی تھی۔پھر اللہ عزو جل کی طرف سے ان پر ’حاصب‘ چلی جوخس وخاشاک کی طرح ان کو لپیٹ لیتی تھی۔
صیفی بن عامر یعنی ابوقیس بن اسلت جاہلی یثربی کہتا ہے:
قُومُوا فَصَلُّوا رَبَّكُمْ وَتَعَوَّذُوا بِأَرْكَانِ هٰذَا الْبَيْتِ بَيْنَ الْأَخَاشِبِ
فَعِنْدَكُمْ مِنْهُ بَلَاءٌ مُصَدقٌ غَدَاةَ أَبِي يَكْسُومٍ هَادِى الْكَتَائِبِ
فَلَمَّا أَجَازُوا بَطْنَ نُعْمَانَ رَدَّهُمْ جُنُودُ الإِلٰهِ بَيْنِ سَافٍ وَحَاصِبِ
فَوَلَّوا سِرَاعًا نَادِمِينَ وَلَمْ يَؤُبْ إِلَىٰ أَهْلِهِ مَلْجيشٌ غَيْرُ عَصَائِبِ[1]
کہ کھڑے ہوکر اپنے رب سےدعا مانگو اور اس گھر کی پناہ لو جو پہاڑیوں کے درمیان ہے۔کیونکہ خدا کی طرف سے تم پرایسا انعام ہوا جس سے تمام وعدوں کی تصدیق ہوگئی،ابویکسوم(ابرہہ)کے دن جو دستوں کی قیادت کرتا تھا۔جونہی وہ بطن نعمان سے آگے بڑھے خدا کی فوجوں نے’ساف‘ اور ’حاصب‘ کے درمیان نمودار ہوکر ان کو پسپا کردیا۔وہ نامراد الٹے پاؤں بھاگے اور فوج میں سے چند مختصر جماعتوں کے سوا کسی کو اپنے اہل و عیال سے ملنا نصیب نہ ہوا۔
طفیل غنوی جاہلی کہتا ہے:
تَرْعَىٰ مَذَانِبَ وَسْمِيٍّ أَطَاعَ لَهُ بِالْجِزْعِ حَيْثُ عَصَى أَصْحابَهُ الْفِيلُ[2]
اَبوامیہ بن ابی الصلت،قبیلہ ثقیف کا جاہلی شاعر،طائف کا باشندہ ہے،ثقیف لات اور غبغب کو پوجتے تھے،ان کا ایک خاص معبدبھی تھا جس میں باقاعدہ کلید برداری وغیرہ کے مناصب تھے۔اس معبد کی وجہ سے ثقیف اور قریش میں ایک حریفانہ چشمک تھی،وہ کہتا ہے:
إِنَّ آیَاتِ رَبّنَا بَیّنَاتٍ لَا يُماري بِهِنَّ إلا الكَفُورُ
حَبَسَ الْفِيلَ بِالمُغمّس حتَّى ظَلَّ يَحْبُو كَأَنَّهُ مَعْقُورُ
وَاضِعًا خَلْفَه الحوارُ كَمَا قُطِعَ صَخْرٌ مِن كَبْكَبَ مَحْدُورُ[3]
کہ ہمارے رب کی نشانیاں بالکل واضح ہیں،صرف کافرہی ان کا انکار کرسکتے ہیں۔اس نے ہاتھی کومُغمس میں روک دیا یہاں تک کہ وہ گھٹنوں کے بل اس طرح چلتا تھا جس طرح وہ اونٹنی جس کی کوچیں کاٹ دی گئی ہوں۔اور اس کے پیچھے اس کا بچہ تھا جیسے کوہ کبکب سے کوئی چٹان تراش لی ہو۔
|