ہے۔ظاہر ہے کہ ان کابیان عینی شہادت پر مبنی ہوگا۔باقی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ چڑیاں چونچوں اور چنگلوں میں پتھر اٹھائے ہوئے تھیں تو یا تو انہوں نے اوپرسے پتھر برستے ہوئے دیکھے اور دور سے یہ گمان کرلیا کہ یہ چڑیاں پھینک رہی ہیں یا ترميهم کی ضمیر کا مرجع انہوں نے طیرًا کو سمجھا اور پھر اصل واقعہ کی تحقیق کئے بغیر آیت کی جو تاویل ان کے ذہن میں آئی اسی سانچہ میں انہوں نے قصہ کو بھی ڈھال لیا۔اس کے بعد جب یہ سوال سامنے آیا کہ ہاتھیوں اور مقتولین کی متعفّن لاشیں جن سے تمام وادی مکہ اٹ گئی تھی،کس طرح دور کی گئیں تو اس کاجواب یہ دے دیا کہ اللہ عزو جل نے سیلاب بھیجا اور وہ سب بہا لے گیا۔حالانکہ اس جواب کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جو بے پناہ سیلاب ان تمام ہاتھیوں اوراتنی بے شمار لاشوں کوبہا لے گیا آخر اس کی زد سے وادی مکّہ کے باشندے کیسے بچ گئے؟ بہرحال یہ ایک رائے اور قیاس ہے،اس کو مشاہدہ اور ذاتی واقفیت سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔
آگے بڑھ کر ان لوگوں کو ایک اور اشکال بھی پیش آیا ہے،وہ یہ کہ ان چڑیوں کے چنگلوں اور چونچوں سے جوپتھر گرتے رہے ہوں گے،ظاہر ہے وہ سیدھے گرتے رہے ہوں گے،پھر ان ہاتھیوں کو کیسے لگے ہوں گے؟ جو ہودجوں اور سواروں سے بالکل ڈھکے ہوئے تھے؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ یہ پتھر سواروں کے جسموں سے گزر کر ہاتھیوں کے جسموں تک پہنچ جاتے تھے۔
واقعہ کی اس حد تک پہنچ جانے کے بعد ان کومجبوراً یہ بھی فرض کرلینا پڑا کہ ابرہہ کی پوری فوج عین موقع پر ہی تباہ ہوگئی اور یہ بربادی صرف پتھروں کے ذریعہ سے ہوئی لیکن فریقِ اوّل کے بیان میں تصریح ہے کہ جن جن کو پتھر لگے وہ چیچک میں مبتلا ہوگئے اور سب فوراً ہی ہلاک نہیں ہوگئے بلکہ وہ نہایت بدحواسی کے ساتھ بھاگے اور راستوں میں مختلف جگہوں پرنہایت بے کسی کے عالم میں انہوں نے جانیں دیں۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دوسرے فریق کی رائے تمام تر اس فرض پرمبنی ہے کہ سنگباری چڑیوں کی جانب سے ہوئی۔یہ چیز ایک مرتبہ فرض کرلینے کے بعد واقعہ کا پورا سلسلہ آ پ سے آپ اسی ڈھانچہ میں ڈھل گیا۔یہ رائے ذاتی مشاہدہ یا مشاہدہ کرنے والوں کے بیانات پرمبنی نہیں ہے۔‘‘[1]
مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی بنیاد قدیم ادبِ عربی پر رکھی ہے اور جاہلی شعراء کے وہ کلام پیش کئے ہیں جن میں لشکر ابرہہ پر قریش کی سنگ باری کرنے کا تذکرہ ملتا ہے کیونکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ لوگ اس واقعہ کے عینی شاہد ین تھے اس لئے ان کے اشعار سے حقیقی صورتحال سامنے آجائے گی۔مولانا فراہی لکھتے ہیں:
’’اب ہم اشعار عرب سے اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور چونکہ یہ لوگ واقعہ کے عینی شاہد ہیں،اس وجہ سے ان کے بیانات سے واقعہ کی اصلی صورت بھی سامنے آئے گی۔یہ اشعار سیرت ابن ہشام اوربعض دوسری کتابوں میں مذکور ہیں،ابوقیس کہتا ہے:
وَمِنْ صُنْعِهِ يَوْمُ فِيلِ الْحُبُو شِ إِذْ كُلُّمَا بَعَثُوهُ رَزَم
مَحَاجِنُهُمْ تَحْتَ أَقْرَابِهِ وَقَدْ كَلَمُوا أَنْفَهُ فَانْخَرَم
وَقَدْ جَعَلُوا سَوْطَهُ مِغْوَلًا إِذَا يَمَّمُوهُ قَفَاهُ كَلَم
فَأُرْسِلَ مِن رَّبِهِمْ حَاصِبٌ ز يَلُفُّهُمْ مَثْلَ لَفِّ الْقَزَم[2]
|