تھیں۔3۔انہوں نے اصحاب فیل کی لاشوں کو کھایا۔4۔اصحاب فیصل پر ہر سمت سے پتھر برسے۔5۔پتھروں کے لگنے سے ان کو چیچک ہوگئی۔6۔ان کی ہلاکت ایک ہی جگہ نہیں واقع ہوئی،بلکہ بھاگتے ہوئے بہت سے ان میں سے راستوں میں مرے۔
دوسرے فریق کے بیانات یہ ہیں:1۔چڑیاں اصحاب فیل کو پتھر مارتی تھیں۔2۔پتھر ان کی چونچوں اور چنگلوں میں ہوتے تھے۔3۔یہ پتھر سواروں کے جسموں سے گزر کر ہاتھیوں کے جسموں میں گھس گھس جاتے تھے۔4۔جو جہاں تھے وہاں ڈھیر ہوکے رہ گئے۔5۔ایک سیلاب آیا جو مقتولین کی لاشوں کوبہالے گیا۔
ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھو۔اب ہم دونوں قسم کی روایتیں تفسیر ابن جریر سے نقل کرتے ہیں۔ہم نےصرف اسی ایک کتاب پراکتفا کیا ہے اور قصداً ایسی کتابوں کو نظر انداز کردیا ہے جن میں بغیر کسی جرح و تنقید کے ضعیف و موضوع روایات بھر دی گئی ہیں۔
عکرمہ سے﴿طَيْرًا أَبَابِيلَ﴾کے بارے میں روایت ہے کہ یہ چڑیاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں،سمندر کی سمت سے آئی تھیں،ان کے سرشکاری چڑیوں کے سر کی طرح تھے۔
محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے﴿طَيْرًا أَبَابِيلَ﴾کے بارے میں فرمایاکہ اس سے مراد چڑیاں ہیں،ان کے چڑیوں کی طرح کے سونڈ اور کتے کے پنجوں کے مانند چنگل تھے۔
یہ دوسری روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعدّد طریقوں سےمروی ہے۔اس میں ایک بات قابل لحاظ ہے کہ انہوں نے ان چڑیوں کی چونچوں کیلئے خرطوم(سونڈ)کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو شکاری چڑیوں کی چونچوں کیلئے مستعمل ہے۔
چنانچہ امرؤ القیس کا شعر ہے:
كَأَنَّهَا لِقْوَةٌ طَلُوبُ كَأَنَّ خُرْطُومَهَا مِنْشَالُ
کہ وہ اونٹنی جھپٹنے والے عقاب کی طرح ہے جس کی چونچ کرچھے کے مانند ہے۔
سعید بن جبیرنے﴿طَيْرًا أَبَابِيلَ﴾کےبارےمیں فرمایا:کہ یہ چڑیاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں اور زردگوں چونچوں سے ان کاگوشت کھاتی تھیں۔
دیکھو عکرمہ رحمہ اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے صاف واضح ہے کہ چڑیاں بڑے قدر کی شکاری چڑیوں کی قسم کی تھیں مثلاً گدھ وغیرہ۔ابن جبیر والی روایت میں تصریح ہے کہ وہ ان کی لاشوں کو کھاتی تھیں۔ان روایات میں چڑیوں کے پتھر مارنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس کے بعد ہم کو دو روایتیں ملتی ہیں جو قتادہ اور عبید بن عمیر سے مروی ہیں۔جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ چڑیاں چونچوں اور چنگلوں میں پتھر لئے ہوئے نمودار ہوئی تھیں۔ان روایات میں ان چڑیوں کے شکاری ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ان کے علاوہ ایسی روایتیں بھی ہیں جن میں یہ دونوں قسم کی باتیں گڈ مڈ ہوگئی ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ راویوں کی بداعتقادی ہے۔انہوں نے غلطی سے دونوں قسم کی روایتوں میں خلطِ مبحث کردیا ہے۔چنانچہ علامہ ابن جریر اپنی تاریخ میں اس واقعہ پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں مختلف روایتیں باہم گڈ مڈ ہوگئی ہیں۔
اب ان دونوں قسم کی روایات پر غور کرنا چاہئے۔
جن لوگوں نے چڑیوں کی شکل و صورت،ان کا رنگ،ان کی چونچوں کی زردگونی،ان کا لاشوں پر گرنا،سب کچھ بیان کیا
|