کسی نے ابرہہ کو مخاطب کرکے کہا ہے:
أَيْنُ المَفَرّ وَإلْإِلٰهُ الطَّالِبُ وَالْأَشْرَمُ المَغْلُوبُ غَيْرُ الْغَالِبِ[1]
کہ اب کہاں بھاگتے ہو؟ خدا تعاقب میں ہے۔اشرم مغلوب ہوگا،غالب نہ ہوگا۔
عبدالمطلب نے کوہ حرا پر چڑھ کر کہا:
لَاهُمَّ إِنَّ المَرْءَ يَمْ ۔نَعُ رَحْلَهُ فَامْنَعْ رِحَالَك
لَا يَغْلَبَنَّ صَلِيبُهُمْ وَمَحَالُهُمْ أَبَدًا مِحَالَك
إِنْ كُنْتَ تَارِكُهُمْ وَقِبْ ۔لَتَنَا فَأَمْرٌ مَا بَدَا لَك[2]
کہ یا الٰہی!آدمی اپنے اہل کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے لوگوں کی حفاظت کر۔ان کی صلیب اورقوت تیری قوت پرغالب نہ ہو۔اگر تو ہمارے قبلہ کو ان کے زیرنگین کرنا چاہتا ہےتو وہی کر جو تیری مرضی ہو۔
نفیل بن حبیب خثعمی جاہلی جو موقع پر موجود تھا،کہتا ہے:
أَلَا رُدّي جِمَالَكِ یَا رُدَیْنَا نَعِمْنَاکُمْ مَعَ الْإصْبَاحِ عَیْنَا
فَإِنَّكِ لَوْ رَأَيْتِ وَلَنْ تَرَيْهِ إِلَىٰ جَنْبِ المحَصّب مَا رَأَيْنَا
أَكُلُّ النَّاسِ يَسْأَل عَن نُفَيل كَأَنَّ عَلَيَّ لِلحُبْشَانِ دَيْنَا
حَمِدتُّ اللّٰهَ إِذْ عَانَيْتُ طَيْرًا وَحَصْبَ حِجَارَةٍ تُلقَىٰ عَلَيْنَا[3]
کہ اے ردینہ!اپنے اونٹوں کو واپس لا،تمہارے دیدار سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔اگر تو دیکھتی اور اب ہر گز نہیں دیکھ سکتی،جو محصّب کے پہلو میں ہم نے دیکھا۔ہر شخص نفیل ہی کو پوچھتا ہے گویا حبشیوں کا میں نے قرض کھایا ہے۔میں نے خدا کاشکر ادا کیا جب چڑیوں کو دیکھا اور ہمارے اوپر پتھروں کی بارش ہورہی تھی۔
مغیرہ بن عبداللہ المخزومی کہتا ہے:
أَنْتَ حَبَسْتَ الْفِیلَ بِالمُغَمَّس
حَبَسْتَ کَأَنَّهُ مُكَرْدَس
مُحتَبس تزْهَق فِيهِ الْأنفُس[4]
تو نےمغمس میں ہاتھی روک دیا اس طرح گویا ایک آدمی کو ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیا گیا ہو۔
|