خصوصی معنی میں بھی۔اس کے معنی کے پہلو بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔البتہ اس کا استعمال موقع و محل کے تقاضا کے تحت ہوتا ہے۔[1]
5۔ کلام میں اگر متعدد احتمالات ہوں تو اس احتمال کو ترجیح ہوگی جس کی نظیر قرآنِ مجید میں موجود ہو۔اور جس کی نظیر قرآن مجید میں موجود نہ ہواسے ترک کر دیا جائے گا۔اسی طرح اگر دو معانی کا احتمال ہو اور دونوں کی نظیریں قرآن مجید میں موجود ہوں تو اسی احتمال کو ترجیح حاصل ہوگی جو نظمِ کلام کے مطابق ہو۔مولانا فرماتے ہیں:
"إذا كان الكلام ذا احتمالات،تؤخذ منها ما كان لها نظير في باقي القرآن. فما لم يوافقه قرآن غير فيه النزاع يترك"[2]
مثلاً آیتِ کریمہ:﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾[3] كی درج ذیل تاویلیں ہو سکتی ہیں: (۱)۔اللہ تعالىٰ تمہارے ضمیر سے خود تم سے زیادہ واقف ہے۔ (۲)۔اللہ تعالىٰ آدمی کو اس کے ارادہ سے روک دیتا ہے۔
پہلی تاویل کی نظیر بھی قرآن مجید میں موجود ہے اور نظمِ کلام بھی اس کی تائید کرتا ہے،کیونکہ﴿تُحْشَرُونَ﴾کا تصور دل میں اللہ عزو جل کا تقویٰ پیدا کرتا ہے۔اسی لیے متعدد مقامات پر اس کا ذکر تقوی کے ساتھ ہوا بھی ہے۔مثلاً﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾[4]،﴿وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾[5]،﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾[6] اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے اللہ عزو جل کے تصورِ علم سے۔تو گویا یہاں بات یہ کہی گئی ہے کہ اللہ عزو جل کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ وہ تمہارے راز ہائے سربستہ سے واقف ہےاور تمہیں اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔یہ ایک جہت ہوئی یا یوں کہئے کہ اس کا ایک مفہوم یہ ہوا جس کی نظیر بھی قرآن مجید میں موجود ہےاور یہ نظم کلام سے ہم آہنگ بھی ہے۔
رہی دوسری تاویل تو نظیر اس کی بھی قرآن مجید میں موجود ہے چنانچہ ارشاد ہوا:﴿وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ﴾[7] لیکن سیاق کلام اس کی تائید نہیں کرتا۔[8]
6۔ اگر معنیٰ کسی ایسی عبارت کا مقتضی ہو جو کلام میں مذکور نہیں تو یہ مرجوح ہوگا۔
|