Maktaba Wahhabi

277 - 535
میں زیادہ ہوتا ہے جب رسول اپنی قوم ہی میں سے مبعوث ہو۔ (۶)۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا یہی تھی کہ اللہ عزو جل اسی قوم کے ایک فرد کو نبوت پر سرفراز کرے۔ جن لوگوں نے یہ غلط تاویل اختیار کی وہ دراصل اسے آیتِ مباہلہ کی ایک غلط تاویل کیلئے بطور سند استعمال کرنا چاہتے تھے۔[1] 4۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ مختلف جہتیں اور متعدد معانی پائے جانے کی شکل میں اس معنی کو ترجیح دیتے ہیں جو سیاق و سباق اور کلام کےعمود سے زیادہ مناسبت رکھتا ہو،فرماتے ہیں: "اعلم أن ما من كلمة إلا لها أطرف وجهات فهي كالمعاني لها. وكذلك كل أمر وقصة لها اعتبارات شتى وكما أن اللفظ المشترك يأول حسب محلّه فكذلك لا بدّ أن نأول الألفاظ والأمور حسب محلّها. "[2] کہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر لفظ کی متعدّد جہتیں ہوتی ہیں جو اس کے مختلف معانی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس لیے جس طرح مشترک لفظ کا معنیٰ موقع ومحل کی مناسبت سے متعین کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح دیگر الفاظ و کلمات کی تعیین بھی موقع و محل کے تناظر میں ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر خدا کی مخصوص صفت اس کی کامل احدیت ہے لیکن اس کے باوجود ہم مختلف مواقع پر اللہ عزو جل کا ذکر مختلف اسماء کے ساتھ اور الگ الگ ترتیبوں سے پاتے ہیں۔جیسے:﴿بِرَبِّ النَّاسِ()مَلِكِ النَّاسِ()إِلَهِ النَّاسِ[3]يا﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ()الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ()مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ[4]يا﴿الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ[5]يا﴿الْعَزِيزُ الْغَفُورُ[6]يا﴿الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ[7] جو شخص قرآن کو غور سے پڑھنے کا عادی نہیں وہ نہ کلمات کے موقع و محل کی طرف توجہ کرتا ہے اور نہ ان کے خاص پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن ایک صاحبِ نظر اور حقیقت کے متلاشی پر جب ایک مرتبہ بعض ظاہر پہلو واضح ہو جائیں تو اس کیلئے مزید غور و فکر کو ترک کرنا آسان نہیں رہ جاتا۔و ہ آگے کی حقیقتوں سے واقف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس اصول کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر لفظ غیر مشتر ک ہو تو اس کو ایک ہی معنی کیلئے محدود کرنا لازم نہیں آتا،جیسا کہ بعض اہل الرائے کا خیال ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ مجاز بھی ہو سکتا ہے حقیقت بھی۔وہ اپنے عمومی معنی میں بھی ہوسکتا ہے
Flag Counter