Maktaba Wahhabi

276 - 535
کے دل اللہ اور اس کے رسول کی طرف جھک چکے ہیں۔کیونکہ صغو کا لفظ کسی شے کی طرف جھکنے کیلئے آتا ہے،کسی شے سے مڑنے اور ہٹنے کیلئے نہیں آتا۔ مولانا کے نزدیک اس آیت کااسلوب بھی اس مفہوم کی نفی کرتا ہے۔فرماتے ہیں: ’’اہل عرب کے متعلّق یہ بات معلوم ہے کہ وہ کلام میں حشو و زوائد سے بہت بچتے ہیں اور بات کے جتنے حصہ کا حذف ممکن ہو اس کے ذکر کو بلاغت کے خلاف سمجھتے ہیں۔یہ فنِ بلاغت کا ایک نہایت وسیع باب ہے جس کی تفصیلات طویل ہیں۔ہم یہاں صرف اتنے حصہ پر بحث کرناچاہتے ہیں جتنا ’إِنْ‘ شرطیہ اور ’قَدْ‘ سے تعلّق رکھتا ہے۔ پہلے ہم بعض مثالیں نقل کریں گے تاکہ جس محذوف کو ہم روشنی میں لانا چاہتے ہیں،اس کی طرف اشارہ کرسکیں۔قرآنِ مجید میں ہے:﴿إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ[1] کہ اگر تم فتح چاہتے تھے تو لو فتح آگئی۔دوسری جگہ ہے:﴿فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ[2] کہ اگر یہ تم کو جھٹلاتے ہیں تو کچھ تعجب نہیں تم سے پہلے دوسرے انبیاء کوبھی جھٹلایاگیا۔ایک جگہ ہے:﴿فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ[3]کہ اگر یہ اس کا انکار کرتے ہیں تو کچھ غم نہیں،ہم نے اس پر ایک ایسی قوم مامور کی ہے جو اس کی منکر نہیں ہے۔... ان تمام مثالوں پر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ اس طرح کے اسالیب میں ’قَدْ‘ کے بعد جو جملہ ہوا کرتا ہے وہ اس امر کی آسانی اور سہولت کو بیان کرتا ہے جو ’إِنْ‘ کےبعدکہی جاتی ہے،یعنی اسلوبِ محذوف کو اگر کھول دیا جائے تو تقدیرِ کلام یہ ہوتی ہے کہ اگر ایسا ایسا ہوا تو کچھ ہرج نہیں،یا کوئی اشکال نہیں،یا یہ معمول بات ہے کیونکہ ایسا ایسا ہوچکا ہے۔پس اس آیت کی تاویل یہ ہوگی کہ اگر تم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاجوئی کے لئے خدا سے توبہ کرو،جس طرح پیغمبر تمہاری دلداری فرماتا ہے،تو یہی بات تم سے متوقّع ہے کیونکہ تمہارے دل تو اس کی طرف مائل ہی ہیں۔‘‘[4] مولانا فراہی رحمہ اللہ نے شاذ ومنکر الفاظ استعمال کرنے کی دوسری مثال یہ دی ہے کہ آیتِ کریمہ:﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ[5]کہ اللہ نے مؤمنوں پر احسان فرمایا جب ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا،کے تحت کسی کا قول یہ ہے کہ﴿أَنْفَسِهِمْ﴾میں فاء منصوب ہے یعنی مِنْ أَنْفَسِهِمْ۔یہ تاویل بالکل باطل ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔مثلاً: (۱)۔یہ معنیٰ شاذ ہیں،خود قرآن میں یہ بات موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں سے تھے۔ (۲)۔یہ بالکل واضح معاملہ ہے۔ (۳)۔یہ کہ رسول کا اپنی قوم میں سے ہونا کوئی عیب نہیں،وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔ (۴)۔یہ کہ کلامِ عرب کے نظائر اس تاویل کے خلاف ہیں۔عرب اس مفہوم کیلئے مِنْ خِیَارِهِمْ اور من عليَائِهم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں،مِنْ أَنْفَسِهِمْ نہیں کہتے۔ (۵)۔یہ کہ خدا کا احسان اسی شکل
Flag Counter