Maktaba Wahhabi

279 - 535
مولانا فراہی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: "إذا كان المعنى مقتضيًا لعبارة غير ما في الكلام،فذلك المعنى مرجوح"[1] مثلاً تغنّی بالقرآن کے مفہوم کے تعین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی اصول سے استدلال کیا۔اس بارے میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ(198ھ)کا خیال تھا کہ اس کا مطلب یستغني بالقرآن ہے۔جب امام شافعی(204ھ)سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔اس صورت میں حدیث کے الفاظ یوں ہونے چاہئے تھے:من لم یستغن بالقرآن چونکہ لم یَتَغَنَّ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لئے حدیث کا مفہوم استغناء نہیں بلکہ تغنی ہے۔[2] 7۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک تاویل کے ترجیحی اصولوں میں سےایک اصول ہے یہ کہ مختلف شکلوں میں سے سب سے زیادہ پائیدار اور ثابت شدہ شکل کو اختیار کیا جائے،چنانچہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں: "فإن المعنى الذي كثر في كلام العرب لا ينبغي تركه إلا لصارف قوي. فإذا تساوى الوجوه الأخر وهو النّظم والموافقة بباقي القرآن وصريح العقائد،لا بدّ أن نأخذ المعنى الشّائع. "[3] کہ جو معنیٰ کلامِ عرب میں کثرت سے مستعمل ہو،اسے اس وقت تک ترک نہ کیا جائے،جب تک کہ کوئی زبردست مانع نہ پایا جائے۔چنانچہ جب دیگر وجوہ مثلاً سورہ کا ربط و نظام،آیات کا سیاق،صریح عقائد اور دیگر آیات قرآنی سے ہم آہنگی اور مطابقت وغیرہ یکساں طور پر پائی جائیں تو ایسے وقت میں لازمی طور پر معروف و مشہور معنیٰ ہی اختیار کرنا چاہئے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس کی مثال﴿لِلشَّوَى﴾کی پیش ہے۔کلامِ عرب میں اس کے معروف معنی پنڈلی کا گوشت ہیں۔شاہ عبد القادر دہلوی رحمہ اللہ نے آیت کریمہ﴿نَزَّاعَةً لِلشَّوَى[4]کے ترجمہ میں اس سے مراد کلیجہ لیا ہے حالانکہ اگر سیاقِ کلام کو مدنظر رکھا جائے تو موقع منکرین کے دوزخ میں داخل ہونے کا نہیں بلکہ عذاب کے قرب کے تذکرہ کا ہے ...جن لوگوں نے ﴿لِلشَّوَى﴾کو سر کی کھال کے معنی میں لیا ہے انہوں نے بھی غلطی کی ہے۔اس معنی میں یہ لفظ بہت کم آیا ہے وہاں بھی اس کے معروف معنیٰ ہی کا احتمال موجود ہے۔پھر قرآن و حدیث میں آگ کی اس کیفیت کا ذکر نہیں آیا کہ وہ بالکل اوپر سے سر کی کھال اڑا لے جائے گی۔بالفرض اگر یہ دونوں معنی برابر قرار دیے جائیں جب بھی ان میں سے وہی اختیار کیا جائے گا جو نظم سے زیادہ موافقت رکھتا ہو اور باقی قرآن سے بھی اس کے دلائل ملتے ہوں۔[5]
Flag Counter