لغت کی جن کتابوں سے مولانا نے استفادہ کیا ہے وہ بھی ناقدانہ نوعیت کا ہے۔وه مقلدِ اعمیٰ بن کر کسی چیز کو بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔’لسان العرب‘ جس سے مولانا نے خاصا استفادہ کیا ہے اور جس کا حوالہ کافی ملتا ہے اس پر اور اس جیسی لغات پر مولانا فراہی رحمہ اللہ کا تبصرہ یہ ہے:
"فأما في سائر الألفاظ وأساليب حقيقتها ومجازها فالمأخذ فيه كلام العرب القديم والقرآن نفسه،وأما كتب اللغة فمقصرة،فإنها كثيرا ما لا تأتي بحدّ تام،ولا تميز بين العربي القح والمولد،ولا تهديك إلى جرثومة المعنى فلا يدري ما الأصل،وما الفرع؟ وما الحقيقة وما المجاز؟ فمن لم يمارس كلام العرب واقتصر على كتب اللغة ربما لم يهتد لفهم بعض المعاني من كتاب اللّٰه. ومن كلام العرب القديم الذي وصل إلينا ما هو منحول،وما هو شاذ،ولكن لا يصعب التمييز بين المنحول والصحيح على الماهر الناقد. فينبغي لنا أن لا نأخذ معنى القرآن إلا مما ثبت. "[1]
کہ دوسرے الفاظ(یعنی اصطلاحی الفاظ کے علاوہ عام عربی الفاظ)اور حقیقت ومجاز کے مختلف اسلوب تو اس باب میں ماخذ قدیم کلامِ عرب اور خود قرآنِ مجید ہے۔لغت کی کتابیں ان چیزوں کی تحقیق میں کچھ زیادہ رہنمائی نہیں کرتیں۔ان سے بالعموم نہ تو الفاظ کی پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے،نہ عربی خالص اور عربی مولد کے درمیان کوئی امتیاز ہوتا ہے اور نہ ہی لفظ کی اصل کا پتہ چلتا ہےکہ معلوم ہو سکے کہ کیا اصل ہے اور کیا فرع،حقیقت ہے یا مجاز؟ جو لوگ کلامِ عرب میں مہارت بہم نہیں پہنچاتے بلکہ صرف لغت کی کتابوں پر قانع رہ جاتے ہیں وہ بعض اوقات قرآن کے معنی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔پھر قدیم کلامِ عرب کا جتنا حصہ ہم تك پہنچا ہے،اس میں بہت کچھ ملاوٹ بھی ہے اور غریب و نامانوس الفاظ کی بھی اس میں آمیزش ہے لیکن ایک ناقد و ماہر کیلئے اصل و نقل میں امتیاز کرنا کچھ مشکل نہیں پس ضروری ہے کہ تفسیر قرآن میں صرف وہ معنی لیے جائیں جو اصل کلامِ عرب سے ماخوذ ہوں۔
ايك اور مقام پر فرماتے ہیں:
"وكتب اللغة والغريب لا تعطيك حدودَ الكلمات حدًّا تامًّا،وكتب السّير والتّفسير لا تُبيّن لك بالتّمام والصّحة أمورًا جاء ذكرُها في القرآن. وكتب العلوم الأخر من العقليّات والأخلاق لا تُعطيك ما تضمَّن عليه القرآن من الحكم والأسرار. فاحتَجنا إلى ثلاثة علوم:اللغة والتاريخ والحكمة،ومن أراد التأمل الصّحيح والتّدبّر التّام وجب عليه أن لا يغفُل عن التنقيد فيما يأخذه من هذه العلوم كلّها. ومن يتمسّك بالقرآن،وينوّر اللّٰه عقله به،يطّلع على أغلاطٍ كثيرة في كتب القوم،والضرر يكون بقدر الاعتماد عليها والغفلة من التنقيد ومضرة كتب الفلسفة أضل وأوغل. فإن معظم القرآن الحكمةُ،وهي الأصل،ولا سبيل إلى فهمها من القرآن دون الاطّلاع على معاني كلماتها المفردة ودون العلم بصحيح علوم اللسان من البيان الحافل بدلائل." [2]
|