کہ لغت اور غریب کی کتابوں میں ہمیں کلمات کے حدود وقیود کی مکمل تصویر کشی نہیں ملتی۔سیر اور تفسیر کی کتابیں قرآن کے بیان کردہ مفاہیم سے ہمیں کلی طور پر روشناس نہیں کراتیں،اسی طرح اخلاق اور فلسفہ کی کتابیں قرآنِ کریم کے جملہ اسرار ورموز کی نقاب کشائی سے قاصر ہیں۔اس لئے ہمیں لغت،تاریخ اور حکمت تینوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔اور جو شخص قرآن سے وابستہ رہے،اور اللہ عزو جل اس کی برکت سے اس کے دل ودماغ کو روشن کردے تو اسے لوگوں کی تصنیفات میں خاص طور پر فلسفہ کی کتابوں میں بے شمار لغزشیں اور گمراہ کن باتیں نظر آئیں گی۔قرآن کریم سراپا علم وحکمت اور اصل واساس ہے۔اس کے علوم ومعارف کی تہہ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے مفردات قرآنی اور علومِ لسانی سے خاطر خواہ واقفیت ناگزیر ہے۔
فنِ نحو،منطق،علم البیان،فنِ بلاغت،اصول فقہ اور دوسرے فنون کے سلسلہ میں بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہی ہےکہ یہ سب مختلف پہلووں سے تشنہ اور اصلاح و ترمیم یا تدوینِ نو کے محتاج ہیں،تب کہیں جا کر ان سے تفہیم وتوضیحِ قرآن میں مدد لی جاسکتی ہے۔لغات کی اہمیت بس یہ ہے کہ ان میں استعمالات اور شواہد ونظائر سے اکثر لفظ کے مختلف پہلو واضح ہوجاتے ہیں،لیکن قرآن کے اصل مدّعا کو سمجھنے کیلئے دوسری چیزوں کی ضرورت زیادہ ہے۔’لسان العرب‘ وغیرہ میں اہلِ تاویل کے مختلف اقوال کا نقل کر دیا جانا کوئی خاص اہمیت کی چیز نہیں ہے اور اس سے حلِ مشکلات میں بہت زیادہ مدد نہیں ملتی۔مولانا فرماتے ہیں:
"وأما باقي علوم اللسان كالنحو والمنطق والأصول والبيان والبلاغة والقافية فالكتب المدوّنة فيها۔مع كثرة فوائدها۔أشد تقصيرًا من كتب اللغة لفهم القرآن. " [1]
انہی وجوہات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآنی لغت پر ایک رسالہ ’مفردات القرآن‘ مرتّب کیا جس میں 77 قرآنی الفاظ کی تحقیق و تشریح عربی اشعار اور قرآنی استعمالات کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔یہ کتاب اگرچہ نا تمام رہی،تاہم مولانا عبدالاحد اصلاحی نے دائره حمیدیہ،سرائے میر اعظم گڑھ سے شائع کر دیا ہے۔یہ کتاب ڈاکٹر محمد اجمل اصلاحی کی تشریح و تحقیق کے ساتھ دار العرب الاسلامی بیروت سے بھی 2002ء میں بڑی نفاست اور اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ تفسیر قرآن میں عربی زبان و ادب کو کلیدی حیثیت دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مفسر قرآن کیلئے ادبِ جاہلی سے واقفیت انتہائی ضروری ہے۔اگر مفسر،تفسیر قرآن میں ادبِ جاہلی کو ملحوظ نہ رکھے تو بیشتر مقامات پر قرآن کریم کے صحیح معنی و مفہوم کی وضاحت سے قاصر رہے گا،جس سے بہت سی خرابیاں لازم آئیں گی۔
جہاں قدیم جاہلی ادب کے مستند ہوتے کا تعلّق ہے،تو اس سلسلے میں مولانا رقمطراز ہیں:
"كما أن اللّٰه تعالى وعد أن يحفظ متن القرآن العظيم،حيث قال:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾فكذلك وعد بيانه حيث قال:﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾فمن بعض إنجاز وعده أنه حفظ اللسان العربي من الاندراس والمحو،وجعله حيّا باقيًا." [2]
|