Maktaba Wahhabi

270 - 535
عرب سے استشہاد اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تاریخی جملہ الشّعر دیوان العرب[1]سے بھی اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کو دورِ جاہلیت کے شعری و نثری سرمایہ سے کافی دلچسپی تھی اور ان سے انہوں نے اپنی تفسیر میں استشہاد بھی خوب کیا ہے۔وہ کہیں ادب کی کسی کتاب کا حوالہ دیتے نظر نہیں آتے اور ابن منظور رحمہ اللہ کی لسان العرب اور جوہری رحمہ اللہ کی الصحاح کے سوا کسی کو بطور مرجع استعمال کرتے دکھائی نہیں دیتے لیکن جاہلی اشعار سے استشہاد اور مفہوم کی تعیین میں ان سے مدد لینا مولانا کے منہجِ تفسیر کا نمایاں پہلو ہے۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا[2] میں ’صغو‘ کے معنی عام مفسرین نے منحرف ہونا،حق سے پھرنا اور نافرمانی کرنا کیلئے ہیں لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ سے أنابت قلوبکما ومالت إلى اللّٰه ورسوله کہ تم دونوں کے دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھک گئے ہیں،کے معنیٰ میں لیتے ہیں پھر وہ لفظ ’صغو‘ کی لغوی تحقیق کرتے ہیں اور اس کے تمام مشتقات میں اس مفہوم کی موجودگی سے استدلال کرتے ہیں[3] اور آخر میں کلامِ عرب سے بطور دلیل اشعار پیش کرتے ہیں۔ ابن بری نے الإصغاء بالسّمع(کسی کی طرف کان لگانا)کے ثبوت میں شاعر کا مندرجہ ذیل شعر پیش کیا ہے: تَرَی السّفِيهَ بِهِ عَن کُلّ مَكْرُمَةٍ زَیْغٌ وفِيهِ إِلَى التَّسْفِيهِ إِصْغَاء[4] کہ نادان انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ عز و شرف کی ہر بات سے منہ موڑتا ہے اور سفاہت کی باتوں کی طرف کان لگاتا ہے۔ ذو الرّمہ اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے: تُصْغِي إِذَا شَدَّهَا بِالکُورِ جَانِحَةً حَتّی إِذَا مَا اسْتَوَی فِي غَرْزِهَا تَثِبُّ[5] کہ جب وہ اس پر کجاوہ کستا ہے تو وہ گردن موڑ کر کان لگاتی ہے،یہاں تک کہ جب وہ اس کے رکاب میں پاؤں رکھ دیتا ہے تو وہ جھپٹ پڑتی ہے۔ اعشیٰ اپنے کتے کی آنکھ کا ذکر کرتا ہے: تَرَی عَیْنَهَا صَغْوَاءَ فِي جَنْبِ مُؤقِهَا تُرَاقِبُ کَفّي وَالْقَطِیعَ المُحَرَّمَا[6] کہ اس کی آنکھ گوشۂ چشم کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے اور وہ میری ہتھیلی اور مضبوط بٹے ہوئے کوڑے کو دیکھتی ہے۔
Flag Counter