لیکن حدیث میں جہاں حکمت ہوتی ہے وہاں اس میں احکام بھی پائے جاتے ہیں۔لہٰذا حکمت کو اس سے خاص کرنا صحیح نہیں۔[1]
لیکن یہ شبہات اور دلائل بالکل بے بنیاد ہیں۔جن علماء نے حکمت سے مراد سنت لی ہے،انہوں نے قرآن یا اس کے علاوہ دوسری چیزوں میں حکمت ہونے سے انکار نہیں کیا ہے۔قرآن پر بھی حکمت کا اطلاق ہوتا ہے،جیسا کہ آیت کریمہ﴿ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ﴾[2]سے معلوم ہوتا ہے۔لقمان کو بھی حکمت عطا کی گئی تھی۔عام دانائی کی باتوں کیلئے بھی حکمت کا لفظ بولا جاتا ہے۔احادیث میں بھی مختلف چیزوں کیلئے حکمت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔کلامِ عرب اور عربی زبان کے استعمالات سے بھی حکمت کا مختلف معانی کیلئے استعمال ہونا معلوم ہوتا ہے۔انہوں نے صرف یہ کہا ہے کہ آیت﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾[3] میں حکمت سے مراد سنت ہے۔لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ کو اصرار ہے کہ مذکورہ آیت میں حکمت سے مراد معانی قرآن ہیں،لیکن انہوں نے دلیل میں جو آیتیں پیش کی ہیں،ان سے مدّعا ثابت نہیں ہوتا۔یہ صحیح ہے کہ کتاب وحکمت کیلئے﴿يُتْلَى﴾کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو حدیث کیلئے مستعمل نہیں ہو سکتے[4]،لیکن انہوں نے حکمت کا جو مفہوم بتایا ہے اس کیلئے بھی اس معنیٰ میں﴿يُتْلَى﴾اور﴿وَأَنْزَلَ﴾کے الفاظ نہیں آسکتے جس معنیٰ میں قرآن کیلئے آتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ﴿يُتْلَى﴾اور﴿وَأَنْزَلَ﴾کا تعلّق اصلاً کتاب سے ہے،حکمت اس کے ذیل میں آتی ہے۔علماء نے آیتِ مذکورہ میں حکمت کی تشریح سنت سے اس لئے کی ہے،کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو جن علوم سے نوازا ہے ان میں صرف علمِ کتاب ہی نہیں،بلکہ علم سنت بھی ہے۔آپ کا کام تبیین کتاب کے ساتھ دوسرے احکام سے بھی واقف کرانا تھا۔مختلف احادیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ جو اسرارِ شریعت کے بہت بڑے رمز شناس ہیں،فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کو جو علومِ رسالت دیے ان کا ایک حصہ براہِ راست وحی سے تعلّق رکھتا ہے اور ایک حصّہ آپ کے اجتہادات سے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اجتہاد صرف نصوص سے نہیں ہوتا،بلکہ اللہ عزو جل نے آپ کو شریعت کے جو مقاصد اور اس کی جو حکمتیں بتائی تھیں،ان کی روشنی میں بھی آپ نے اجتہاد فرمایا اور احکام دئیے۔دوسروں کے اجتہاد سے آپ کا اجتہاد اس پہلو سے مختلف ہے کہ آپ کا اجتہاد ہر ایک کیلئے واجب العمل ہے۔اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اجتہادی غلطی ہوتی تو اللہ عزو جل اس کی اصلاح فرما دیتے تھے۔‘‘[5]
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنے تصورِ نظم قرآن کی تائید میں بھی حکمت سے استدلال کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ نظم قرآن حكمت كی راہنمائی
|