Maktaba Wahhabi

213 - 535
عمود کیلئے ضروری نہیں ہے کہ وہ سورہ کے اندر اپنی حقیقت کے اعتبار سے سب سے عظیم الشان بات ہو۔اس کے لئے عظیم الشان بات نہیں بلکہ سب سے زیادہ جامع بات ہونا ضروری ہے۔کیونکہ وہ سورہ کے مطالب کے لئے شیرازہ کا کام دیتا ہے۔ہاں بیان کے لحاظ سے وہ سورہ کے اندر سب سے زیادہ اہم چیز ہوتی ہے۔سورہ نور کے اندر،آیت نور کو دیکھئے وہ کس طرح آفتاب تاباں بن کر چمک رہی ہے،لیکن اس کے باوجود سورہ کے اندر عمود کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ ایک بالکل ضمنی مضمون کی حیثیت رکھتی ہے۔عمود اس کا عورتوں سے متعلق حسن ادب کی تعلیم ہے۔اسی وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ یہ سورة عورتوں کو پڑھائی جائے تا کہ وہ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو معلوم کر سکیں۔ یہ تو کسی چیز کے بطور عمود آنے کی شکل ہوئی۔ضمنا آنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی چیز بطور دلیل،یا بطور مثال آجائے یا بعد میں آنے والے دعوی ٰکے لئے کسی مثال یا حجت سے تمہید استوار کی جائے،یا ماسبق کی توسیع یا تجدید کی جائے،یا کوئی سوال پیدا ہو جائے،اس کا جواب دیا جائے،یا اپنے ما بعد کی تمہید ہو،یا کوئی مناسب مقام حکمت کی بات پر سبیل تذکرہ آجائے،یا ما سبق کی تفصیل کی جائے،یا وعدہ و وعید اور مدح ذم کے ذریعہ سے اس پر ابھارا جائے،یا کسی مزید علم کا بیان ہو،یا موقع کی مناسبت سے حمد الٰہی اور صفات رب کا بیان ہو۔اور یہی آخری چیز قرآن حکیم کی روح ہے۔ ہم ان مختصراً اوپر کی باتوں میں سے پانچویں بات کی کسی قدر وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔یعنی اس بات کی کہ ایک شے کبھی ایک چیز کے ساتھ ملائی جاتی ہے اور کبھی دوسری شے کے ساتھ۔اگر تم اسی بات کا یقین رکھتے ہو کہ اللہ عزو جل نے اپنی کتاب میں نہایت اعلیٰ حکمت مد نظر رکھی ہے تو جب تم ایک شے کو کسی شے کے ساتھ دیکھو گے تو ضرور ان دونوں کے درمیان مناسبت تلاش کرو گے۔یہ تلاش ایسے مخفی وحقائق حکمت تک تمہاری رہبری کرے گی جن حقائق تک وہ شخص کبھی نہیں پہنچ سکتا جو تدبر کا عادی نہیں ہے۔ایک ہی شے کے مختلف پہلو ہوتے ہیں،ایک پہلو سے وہ ایک چیز سے مناسبت رکھتی ہے اور دوسرے پہلو سے کسی دوسری چیز سے۔مثلاً دیکھو نماز اور حج میں کتنی مناسبتیں موجود ہیں۔دونوں ذکر الٰہی کی صورتیں ہیں،دونوں بدنی عبادتیں ہیں،دونوں بیت اللہ سے تعلق رکھتی ہیں،نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ طواف نماز ہے۔ نماز میں اتنی مناسبتیں تو حج کے ساتھ تھیں۔اب روزہ کے ساتھ نماز کی مناسبتوں پر غور کرو۔دونوں کسی مخصوص جگہ کی قید سے آزاد ہیں،دونوں کی بنیاد صبر پر ہے۔یہاں تک کہ پہلے ادیان میں سکوت بھی روزہ کے شرائط میں شامل تھا،اس اعتبار سے گویا نماز نفس کا باطنی روزہ ہے۔ پھر نماز کی مناسبت زکوٰة کے ساتھ دیکھو۔یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے سے کمال کو پہنچتی ہیں۔دونوں ایک ہی جڑ سے پھوٹتی ہیں۔نماز کی حقیقت بندہ کا بندہ کی طرف محبت اور شفقت سے مائل ہونا ہے۔پس کمال سعادت کے لئے دونوں لازمی ٹھہریں اور ان دونوں کی روح محبت ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود دین کی حقیقت بھی محبت،گدازباطنی اور لطافت
Flag Counter