Maktaba Wahhabi

212 - 535
اغراض ومقاصد میں سے نہیں ہے بلکہ اس کے لوازم میں سے ہے۔اس کائنات کے اندر ایک چھوٹے سے چھوٹے دانے بلکہ ایک حقیر سے حقیر ذرے سے لے کر اس گنبد خضراں تک جو کچھ ہے سب معجزہ ہی معجزہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی چیز کی خلقت بھی اظہار اعجاز کے لئے نہیں ہوئی ہے،بلکہ اللہ عزو جل کی حکمت کے لئے ہوئی ہے۔یہ اور بات ہے کہ انسان ان کو بنانے سے عاجز ہے۔اس لئے ثابت ہوا کہ یہ اللہ عزو جل کی بنائی ہوئی ہیں۔ قرآن میں ایک ہی چیز کبھی عمود کی حیثیت سے آتی ہے،کبھی ضمنی مضمون کی حیثیت سے۔کبھی وہی چیز مجمل کے ساتھ آتی ہے،کبھی تفصیل کے ساتھ۔کبھی ایک چیز موخر ہوتی ہے کبھی مقدم۔کبھی تنہا ہوتی ہے کبھی اپنے مقابل کے ساتھ۔کبھی کسی چیز کے ساتھ اس کا جوڑ ہوتا ہے کبھی کسی چیز کے ساتھ۔بالکل یکساں مضمون مختلف سورتوں میں مختلف ترتیبوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب ایک ہی شے اپنے مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے جلوہ گر ہو گی تو اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے اور پوری طرح پہچان لینے میں تمہیں دقت نہیں ہو گی۔اگر اہل ادا سے نگاہ چوک گئی دوسرا جلوہ سامنے آجائے گا۔قرآن مجید کی اسی صفت کو ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے:﴿انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ[1] کہ دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ سمجھیں۔ اور ہر ترتیب میں ایک خاص حکمت ملحوظ ہوتی ہے۔ہم با لاجمال ترتیب کے مختلف طریقوں کی طرف یہاں اشارہ کرنا چاہتے ہیں اور اوپر جن پانچ امور کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بعض پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے عمود پر غور کرو۔عمود ہر سورہ کا ایک ہی ہوتا ہے لیکن یہی ایک بسا اوقات بہت سی چیزوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔مثلاً سورہ حجرات کے عمود کو لو۔ہے یہ ایک ہی بات،گو لغت میں ہم اس کے لئے ایک ہی جامع لفظ نہ پاسکیں۔تعبیر مطلب کے لیے یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس سورہ میں بدخلقی پر ملامت اور جھڑکی ہے۔عام اس سے کہ وہ بدخلقی خیال سے تعلق رکھتی ہو،یا قول سے،یا عمل سے،چنانچہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گفتگو میں سبقت،آپ کی آواز پر آواز بلند کرنے،عام آدمیوں کی طرح آپ کو پکارنے،بے ضرورت اور بے موقع آپ کو زحمت دینے اور کسی فاسق کی اطلاع پر کسی قوم پر ٹوٹ پڑنے کی ممانعت کی گئی ہے۔پھر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں اصلاح،ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت،اور ان کے درمیان عدل کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے بعد لوگوں کے ساتھ تمسخر سے،ان کی عیب جوئی سے،تنا بز با لالقاب سے،بدگمانی سے،تجسس سے،غیبت سے،غرور نسب سے،ادعائے پارسائی سے اور پھر سب سے آخر میں سب سے بدترین شے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے اسلام کا احسان بھرنے سے روکا گیا ہے۔ یہ ایک مثال میں نے اس لئے پیش کی ہے کہ تم وحدت میں کثرت کا جلوہ دیکھ سکو،اس کے حسن نظام پر مفصّل بحث اپنے مقام پر ملے گی۔
Flag Counter