تمہاری کتاب کی تفسیر اور کلام الٰہی کے معانی موجود ہیں۔
دیوان سے مراد ایک بڑا رجسٹر ہوتا ہے جس میں کسی چیز کے بارے میں تمام معلومات یکجا کی جاتی ہیں۔
تفسیر قرآن میں عربی لغت سے استدلال کے سلسلے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بہت مشہور ہیں۔وہ فرماتے ہیں:
"الشعر دیوان العرب فإذا خفي عليهم الحرف من القرآن الذي أنزله اللّٰه بلغتهم رجعوا إلى ديوانهم فالتمسوا معرفة ذلك"[1]
کہ اشعار اہل عرب کے علوم و زبان کا مجموعہ(انسائیکلو پیڈیا)ہیں اس لئے اگر ان پر اس قرآن کریم کے کسی لفظ کا مفہوم ٹھیک نہ معلوم ہوسکے،جسے اللہ عزو جل نے انہی کی زبان میں نازل کیا ہے،تو وہ اسی دیوان کی طرف رجوع کریں گے اور اسی میں قرآن کے لفظ کا حل تلاش کریں گے۔
اس فرمان سے مراد ظاہر ہے یہی ہے کہ شعر جاہلیت سے مختلف الفاظ کے معانی کی تعیین او ران کا استعمال معلوم ہوتا ہے۔
سیدنا ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وہ فاطر السموات میں فاطر کا معنی نہ جانتے تھے تا آنکہ دو بدو اپنے کنویں کا جھگڑا لے کر ان کے پاس آئے تو ان میں سے ایک بولا:أنا فطرتها كہ میں نے کنواں سب سے پہلے کھودا ہے۔تو فاطر کا معنی ان کی سمجھ میں آگیا۔[2]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
"إذا سألتموني عن غريب القرآن فالتمسوه في الشعر،فإن الشعر ديوان العرب"[3]
اگر تم مجھ سے قرآنی مشكل الفاظ کی نسبت سوال کرنا چاہو تو اسے اشعارِ عرب میں تلاش کرو،کیونکہ شعر عرب کا دیوان ہے۔
سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام قرآن کریم کے بہترین مفسر تھے،کیونکہ عربی زبان ان کی مادری زبان تھی او روہ اس زبان کے آداب اور اس کی فصاحت و بلاغت کے شہسوار تھے۔اس قسم کی تفسیر کی بہت سی مثالیں ہیں۔‘‘[4]
اس سلسلے کی بیشتر مثالیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ہیں۔آپ ہی زیادہ تر عربی لغت سے استشہاد کرتے تھے۔
ہیثم مرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رأیت ابن عباس إذا سئل عن عربية القرآن مما یستعین بالشعر"[5]
کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا جب ان سے قرآن کی عربی کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ شعر سے استشہاد کرتے۔
|