Maktaba Wahhabi

176 - 535
سعید بن جبیر او ریوسف بن مہران رحمہما اللہ کہتے ہیں: "ما نحصي کم سمعنا ابن عباس یسأل عن الشيء من القرآن فيقول هو کذا وکذا،أما سمعت الشاعر یقول:کذا کذا." [1] کہ ہم شمار نہیں کرسکتے کہ ہم نے کتنی بار ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے جب ان سے قرآن میں سے کسی چیز(کسی لفظ کی وضاحت)کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے یہ ایسے ایسے ہے،آپ نے شاعر کو یوں یوں کہتے ہوئے نہیں سنا۔ عبدالرحمن بن عابس رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت﴿إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ﴾کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم تین تین ہاتھ کی لکڑیاں اٹھا کر رکھتے تھے،ایسا ہم جاڑوں کیلئے کرتے تھے(تاکہ وہ جلانے کے کام آئیں)اور ان کا نام قصر رکھتے تھے۔[2] ﴿كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ[3] کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "حبال السفن تجمع حتى تكون كأوساط الرجال. "[4] اس سے مراد کشتی کی رسیاں ہیں جو جوڑ کر رکھی جائیں،وہ آدمی کی کمر برابر موٹی ہوجائیں۔ ﴿وَكَأْسًا دِهَاقًا[5]کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے مراد بھرا ہوا پیالہ ہے جس کا مسلسل دور چلے،عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ میں نے اپنے والد سے یہ سنا کہ زمانہ جاہلیت میں ہم کہتے تھے:اسقنا کأسا دهاقا کہ ہمیں بھرپور جام شراب پلاتے رہو۔[6] ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قرآن کی تفسیر میں لغت سے استشہاد سے متعلّق تفصیلی روایت وہ ہے جس میں نافع بن ازرق[7]نے دو آدمیوں کے ہمراہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تقریباً دو سو سوالات کیے اور آپ نے شعر جاہلیت سے جوابات دیئے۔نافع اور اس کے یہ دونوں ہمراہی بدوی تھے،عربی زبان کی نزاکتوں سے خوب واقف تھے،ساری عمر بادیہ پیمائی میں گزاری تھی،زبان دانی ان کا فن تھا،ان کا خیال تھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ساری عمر شہری زندگی کاٹی ہے۔مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور طائف جیسے شہروں میں رہے ہیں،بدوی
Flag Counter