کرتے رہے ہیں بالخصوص مشکلات القرآن اور نادر الاستعمال الفاظ کی تشریح و توضیح میں انہوں نے اپنی اپنی تفاسیر میں عربی لغت سے استدلال کیا تاکہ فہم قرآن و تفسیر میں قاری کو کوئی دقت محسوس نہ ہو۔آیات قرآن کی تشریح و توضیح میں عربی لغت سے استدلال کا رجحان عہد صحابہ میں ہی شروع ہوگیا تھا۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے بعد صحابہ کرام تفسیر القرآن میں عربی لغت سے مدد لیا کرتے تھے۔کتب تفسیر ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔تراجم بخاری اور بالخصوص صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کثرت سے اشعار جاہلی یاد تھے بلکہ وہ ان سے قرآنی الفاظ کی توضیح میں حسب موقع استدلال بھی کرتے تھے،جاحظ کی رائے ہے:"کان عمر بن خطاب أعلم الناس بالشعر" [1] كہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر شعر کا علم رکھتے تھے۔ابن رشیق نے انہیں اپنے دور کاسب سے بڑا نقاد قرار دیا ہے۔[2]عرب کے مشہور شعراء کا کلام انہیں کثرت سے یاد تھا۔[3]
الفاظِ قرآنی کی شعر جاہلی سے توضیح کیلئے آپ رضی اللہ عنہ مجالس میں لوگوں سے مذاکرہ بھی کرتے۔ایسے ہی ایک موقع پر آپ نے فرمایا:"یا أيها النّاس علیکم بدیو انکم شعر الجاهلية فإن فيه تفسیر کتابکم." [4] کہ لوگو!اپنے دیوان شعر جاہلی کو لازم پکڑو۔اس میں تمہاری کتاب(قرآن مجید)کی تفسیرموجود ہے۔
سيدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دیگر صحابہ سے آیت کریمہ﴿أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ﴾[5]کے بارے میں دریافت کیا تو ہذیل قبیلے کے ایک بزرگ نے کہا کہ یہ ہماری لغت ہے اور تخوّف کامعنی آہستہ آہستہ گھٹانا ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا عرب اسے اشعار میں پہچانتے ہیں؟ اس نے جواب میں شاعر کا قول پیش کیا:
تَخَوَّفَ الرَّحُلُ مِنْهَا تَامِكًا قَرِدًا كَمَا تَخَوَّفَ عُودَ النّبعَةِ السَّفِنُ
تو سيدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمايا:
"علیکم بدیوانکم لَا تضلّوا،قالوا:وما دیوا ننا؟ قال شعر الجاهلية فإن فيه تفسیر کتابکم ومعاني کلامکم"[6]
کہ اپنے دیوان سے رہنمائی لو تم گمراہ نہیں ہوگے انہوں نے کہا ہمارا دیوان کیا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:شعر جاہلیت،اس میں
|