Maktaba Wahhabi

157 - 535
’’شانِ نزول کا مرفوع کے حکم میں ہونا باعتبارِ ظاہر کے ہے[1] کیونکہ ممکن ہے کہ صحابی کا شانِ نزول کو بیان کرنا ظاہر حال دیکھ کر ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کی ضرورت نہ پڑی ہو۔‘‘[2] شان نزول کی بابت شاہ ولی اللہ(1762ء)کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’صحابہ کبھی وہ عبارت جس کے ساتھ شان نزول بیان کیا جاتا ہے،غیر شان نزول پر بھی بول دیتے ہیں اور اس التباس کی وجہ سے شان نزول کا پہچاننا بعض دفعہ مشکل ہو جاتا ہے۔یہی شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے سارے کلام کا خلاصہ ہے۔‘‘[3] گویا جن لوگوں نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کے کلام سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صحابہ کے بیان کردہ شان نزول کا اعتبار نہیں رہے گا تو ان کا موقف درست نہیں کیونکہ اس طرح توکسی حدیث کابھی اعتبار نہیں رہے گا کیونکہ احادیث کےصحت وضعف میں بھی بہت دفعہ التباس ہو جاتا ہے۔ اسی طرح راویوں کی جرح و تعدیل میں بہت اشتباہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح محدثین کی اصطلاحات صحت و ضعف کے متعلّق اور راویوں کی جرح و تعدیل کے متعلّق الگ الگ ہیں مثلا امام احمد رحمہ اللہ(241ھ)وغیرہ کے نزدیک حسن اورصحیح میں کچھ فرق ہی نہیں۔امام ترمذی رحمہ اللہ(279ھ)کے نزدیک حسن کے اور معنی ہیں۔امام نسائی رحمہ اللہ(303ھ)کا خیال تھا کہ جب تک کسی راوی کی روایت کے ترک پر محدثین جمع نہ ہوں اس کی روایت کو لے لیا جائے۔ابن حبان رحمہ اللہ(354ھ)بھی بہت متساہل تھے،اسی طرح کسی راوی کو ’منکرالحدیث‘ وغیرہ کہنا مختلف معنی رکھتا ہے کسی محدث کے نزدیک کچھ،کسی محدث کے نزدیک کچھ مثلاً کسی کے نزدیک منکرالحدیث وہ راوی ہے جو ضعیف ہو کر ثقہ کی مخالفت کرے اور کسی کے نزدیک کم ثقہ زیادہ ثقہ کی مخالفت کرنے والا بھی اس میں داخل ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب محدثین اور مفسرین کے اصول سے یہ بات طے ہو گئی کہ شانِ نزول مرفوع کےحکم میں ہے تو جیسے احادیث کا فیصلہ ہوتا ہے ویسے ہی اس کا فیصلہ کر لینا چاہئے۔اس کے فیصلہ کی صورت یہی ہے کہ جس حدیث میں اختلاف نہیں ہوتا وہ تو سر آنکھوں پر،اور جس میں اختلاف ہوتا ہے وہاں راجح قول اختیا رکیا جاتا ہے اس طرح جس شانِ نزول کو دیکھا کہ اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا وہ بے چوں چرا تسلیم کرنا چاہئے اور جس میں اختلاف ہو وہاں راجح مرجوح کو دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ امام واحدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "لا یحلّ القول في أسباب نزول الکتاب إلا بالرواية والسّماع ممن شاهدوا التنزیل ووقفوا على
Flag Counter