Maktaba Wahhabi

158 - 535
الأسباب و بحثوا عن علمها" [1] کہ کتاب اللہ کے اسباب نزول کے بارے میں کچھ کہنا جائز نہیں ہے۔اس سلسلے میں انہی صحابہ کی روایت اور سماع معتبر ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ اس کے اسباب سے واقف تھے اور اسی کے جاننے کے لئے بحث وکرید میں لگے رہتے تھے۔ اس بناء پر سلف صالحین اسباب نزول کے سلسلہ میں روایت قبول کرنے میں تشدّد سے کام لیتے اور جب تک کسی صحابی سے صحت سند کے ساتھ اس کا مروی ہونا ثابت نہ ہو جاتا وہ اسے قابل التفات نہ سمجھتے۔امام ابن سیرین رحمہ اللہ(110ھ)بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبیدہ سے ایک آیت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: "اتق اللّٰه وقل سدادًا ذهب الذین یعلمون فیما أنزل القرآن" [2] کہ اللہ سے ڈرو اور کھری بات کہو،وہ لوگ چلے گئے جو جانتے تھے کہ قرآن کس بارے میں نازل ہوا؟ یہاں پر یہ بھی ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ کوئی آیت اپنے نفس الامری مفہوم اور عموم کے اعتبار سے سببِ نزول کے ساتھ مقید و مختص نہیں ہوتی بلکہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے اس آیت کو عموم پر ہی محمول کرنا ضروری ہے۔ جلال الدّين سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اَصح یہ ہے کہ نظم قرآن کو اس کے عموم پر محمول کیا جائے اور اسبابِ خاصہ کا اعتبار نہ کیا جائے ... کیونکہ صحابہ کرام پیش آمدہ واقعات کی توضیح میں آیات کے عموم سے استدلال کرتے رہے ہیں،گو ان کے اسبابِ نزول خاص تھے۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قَصْر عمومات القرآن علی أسباب نزولها باطلٌ فإن عامة الآیات نزلت بأسباب اقتضت ذلك وقد علم أن شیئا منها لم یقصر على سببه"[3] کہ عمومِ قرآن کو اسبابِ نزول پر محدود کر دینا باطل ہے کیونکہ اکثر آیات ایسے اسباب کے تحت نازل ہوئی ہیں جو اسکے مقتضی تھے۔جبکہ یہ معلوم ہے کہ کوئی آیت بھی اپنے سبب نزول تک محدود نہیں ہے۔(بلکہ باعتبار عمومِ لفظ اس میں وسعت ہے۔) آگے چل کر فرماتے ہیں: "ورود اللفظ العامّ على سبب مقارن له في الخطاب لا یوجب قصره عليه ... غاية ما یقال:إنها تختص بنوع ذلك الشخص فتعمّ ما يشبهه." [4] کہ کسی عام لفظ کا خطاب کے مخصوص سبب کی بنا پر آنا اس کو اس سبب سے مقید نہیں کرتا ... زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے۔یہ الفاظ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں آئے ہیں اور اس سے ملتے جلتے لوگوں کو یہ الفاظ شامل ہوں گے۔
Flag Counter