Maktaba Wahhabi

147 - 535
جزئیات میں اختلاف نہ ہو خواہ اصول ہو یا فروع۔اگر کوئی علم ایسا ہو سکتا ہے تو البتہ علم ہندسہ ہو سکتا ہے۔اسی واسطے لکھا ہے کہ علم کی شرافت تین جہت سے ہے۔غایت،موضوع،براہین۔علم شریعت،غایت کی جہت سے شریف ہے اور علم الٰہی موضوع کی جہت سے۔اور علم ہندسہ براہین کی جہت سے،کیونکہ اس کے براہین سب قطعی ہیں۔‘‘[1] ہاں اگر صحابہ میں اختلاف ہو اور اختلاف بھی ایسا کہ موافقت ذرا مشکل ہو تو ایسے موقعہ پر نواب صاحب وغیرہ کا یہ خیال معلوم ہوتا ہے کہ اقوالِ صحابہ حجت نہیں۔چنانچہ کریمہ﴿وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ[2]کی تفسیر میں انہوں نے ایسا اختلاف ذکر کر کے حجیت کی نفی کی ہے اسی طرح آیہ کریمہ﴿وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى[3] کی تفسیر میں سخت اختلاف ذکر کیا ہے کہ اس سے کون سی نماز مراد ہے اسی طرح جہاں جہاں ایسا اختلاف ہوتا ہے وہیں اکثر حجیت کی نفی کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جو اصول ذکر کیا ہے کہ حدیث کے بعد تفسیر میں قول صحابی کادرجہ ہے تو یہ اس وقت ہے جب صحابہ میں ایسا اختلاف نہ ہو جس میں موافقت ذرا مشکل ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ قول اکیلے صحابی کا ہو اگر کئی ایک کا ہو اور دیگر صحابہ سے مخالفت ثابت نہ ہو تو وہ بلا شبہ محدثین کے نزدیک حجت ہے۔محمد علی شوکانی رحمہ اللہ(1250ھ)نے اس بارے میں تفصیلی بحث کی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’اقوال اکابر صحابہ خاص کر خلفائے راشدین کے اقوال کولینا عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہے غیر کی تقلید نہیں کیونکہ صحابہ کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محض رائے سے وہ بہت بچتے تھے۔خاص کر عبادات میں اور اگر کہیں اختلاف پڑجاتا تو کہہ دیتے کہ یہ ہماری رائے ہے۔مگر اس کے باوجود ان کی رائے اقرب ہے کیونکہ جو کچھ انہوں نے مشاہدہ کیا وہ پچھلوں کو نصیب نہیں تو ان کے اقوال کی حجیت سے انکار کی کوئی وجہ نہیں خصوصاً وہ اقوال جن میں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ ہماری رائے ہے۔اور اگر صحابہ کا اختلاف ہو تو اس کی بابت بھی امام شوکانی نے فیصلہ کر دیا ہے کہ یہ اختلاف روایات کی وجہ سے ہوتا ہے تو ایسے موقع پر جہاں تک ہو سکے تاویل کر کے موافقت کی جائے ورنہ کسی اور دلیل سے بعض کو بعض پر ترجیح دی جائے اگریہ بھی نہ ہو سکے تو جو سمجھ میں آئے کرے۔‘‘[4] اب جہاں محمد علی شوکانی رحمہ اللہ نے اقوال صحابہ کے حجت ہونے کی نفی کی ہے اس سے یا تو یہ مرادکہ حدیث کے مقابلہ میں حجت نہیں یا یہ مراد ہے کہ جب دوسرے صحابی کے خلاف ہو اس صور ت میں حجت نہیں یا کوئی اور مناسب تاویل کی جائے۔مطلقاً حجیت کی نفی کرنا صحیح نہیں۔ ہمارے اس بیان سے وہ اعتراض بھی رفع ہو گیا جوبعض لوگ ناواقفی سے کرتے ہیں کہ اگر قرآن مجید کی تفسیر میں اقوال صحابہ حجت ہوں تو اختلاف کی صورت میں بھی ہر ایک صحابی کے قول کی پابندی لازمی ہو گی حالانکہ یہ ناممکن ہے۔بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ
Flag Counter