تفسیر میں دیگر اہل زبان کی طرح ہے۔جن کی بولی پر اعتماد ہے پس اگر ان کی تفسیر مشہور اور شائع تفسیر کے خلاف ہو تو ہم پر حجت نہ ہو گی بلکہ اس صورت میں تابعین اور تبع تابعین اور دیگر ائمہ کی تفسیر معتبر ہو گی۔(جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ(40ھ)دابۃ الارض کی تفسیر رجل کے ساتھ کرتے ہیں اور عباس آیت کریمہ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾[1] میں نحر کی تفسیر وضع الیمین علی الشمال فو ق الصدر فی الصلوٰۃ(یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا)کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ دونوں تفسیریں غیر معتبر ہیں کیونکہ مشہور اور شائع تفسیر کے خلاف ہیں اگرچہ قواعد عربیہ کے رو سے صحیح ہیں۔[2]
اقوالِ صحابہ کی عدم حجیت کے قائل اپنے موقف کے حق میں کہتے ہیں کہ تفسیرات سلف میں اتنے اختلافات ہیں کہ کسی علوم کی جزئیات میں نہ ہوں گے۔ایک معنی ابن عباس سے ان کے شاگرد رشید نقل کرتے ہیں مگر خود اس کے خلاف کہتے ہیں۔عکرمہ اور مجاہد کے اقوال ابن عباس کے مخالف ہوتے ہیں یہاں تک کہ متاخرین مفسرین بھی بعض دفعہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کے اقوال کو ردّ کرتے نظر آتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا معیار ہے جس کی بنا پر سلف نے دوسرے کے قول کو چھوڑا ؟ مثلاً تفسیر معالم اور خازن میں ہے:ابن عباس(68ھ)و غیرہ مفسرین نے کہا ہے کہ حصور(جو حضرت یحییٰ کی صفت میں آیا ہے)کے معنی ہیں جو عورتوں کے پاس نہ جائے،بعض کہتے ہیں ’حصور ‘ وہ ہے جو باوجود قدرت کے جماع کرنے سے رکے یہی قول صحیح ہے اور منصب نبوت کے لائق بھی یہی ہے۔[3]اس تفسیر میں علامہ خازن(741ھ)نے صاف لفظوں میں ابن عباس(68ھ)کے قول کو نہ صرف مرجوح بلکہ غلط قرار دیا ہے۔
حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے اس کا جواب یوں دیا ہے:
’’ذرا انصاف سے کہیں کہ تفسیرات سلف میں تمام علوم کی جزئیات سے زیادہ اختلافات ہیں ؟ اگر آپ اصول فقہ کی جزئیات کا ملاحظہ کرتے تو کبھی یہ کلمہ نہ کہتے آپ خیال کریں کہ مسئلہ اجماع کے متعلق کتنے اختلافات ہیں اسی طرح قیاس کے متعلق کتنے اختلافات ہیں۔اسی طرح ’عام‘ اکثر اشاعرہ کے نزدیک مجمل ہے اس کے ساتھ استدلال کرنا صحیح نہیں اور ثلجی وجبائی کے نزدیک عام سے اقل عدد مراد ہوتا ہے اور حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک اسکا حکم ہے ’ تمام افراد کو شامل ہونا۔‘‘ پھر حنفیہ کے نزدیک شمول قطعی ہے اور شافعیہ کے نزدیک ظنی پھر اس بات میں نزاع ہے کہ تخصیص کے بعد قابل عمل رہتا ہے یا نہیں اس میں چار پانچ مذہب ہیں پھر جنکے نزدیک قابل عمل ہے،ان میں اختلاف ہے کہ مابقی میں حقیقت ہے یا مجاز،اس میں بھی چار پانچ مذہب ہیں۔الغرض اسی طرح شاخ در شاخ اختلاف بڑھتا چلا جاتا ہے۔آپ اصول فقہ کے جس مسئلہ کو دیکھیں گے اسی طرح اس میں شاخ در شاخ اختلاف پائیں گے۔الا ماشاء اللہ اور قرآن مجیدمیں بہت آیات آپکو ایسی ملیں گی جن کی تفسیر میں سلف نے اختلاف نہیں کیا تھا۔‘‘[4]
مزید لکھتے ہیں:
’’اگر صرف اختلاف ہی سبب انکا رہے تو تمام علوم سے انکار کرنا چاہئے کیونکہ دنیا میں کوئی علم آپ ایسا نہ پائیں گے کہ جس کی
|