Maktaba Wahhabi

145 - 535
طرح ہو سکتے تھے دیکھئے خلیل استاد ہے اور سیبویہ شاگرد ہے مگر جب سیبویہ لیاقت میں استاد سے بڑھ گیا اور جہاں سے استاد لیتا تھا وہیں سے شاگرد لینے لگ گیا تو خلیل کا قول سیبویہ پرحجت نہیں رہا نہ کوئی اسکا قائل ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم بھی خلیل یا سیبویہ کے اقوال سے حجت نہ پکڑیں۔ٹھیک اسی طرح صحابہ کے اقوال آپس میں حجت نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہمارے لئے بھی حجت نہ ہوں کیونکہ ہمارے لئے حدیث کے بعد کلام اللہ کے سمجھنے کا ذریعہ یا تو قواعد عربیہ ہیں یا تفسیر صحابہ ہے مگر جو بات تفسیر صحابہ میں ہے وہ قواعد میں نہیں یعنی اصل اہل زبان ہونا اور رفع کا احتمال قوی ہونا اس لئے قواعد کا درجہ پیچھے ہے۔‘‘[1] رہا تابعین کا صحابہ سے اختلاف تو ایسی مثال موجود نہیں جس میں کوئی تابعی تمام صحابہ سے دیدہ دانستہ الگ ہو گیا ہو حالانکہ قرب کا زمانہ تھا،بہت سے تابعی صحابہ کی طرح اہل زبان تھے زبان دانی کے رو سے صحابی کا قول تابعی پر حجّت نہ تھا۔مگر باوجود اس کے تابعین صحابہ سے الگ نہیں ہوئے۔ہاں یہ ممکن ہے کہ صحابہ کا کسی آیت کی تفسیر میں اختلاف ہو اور تابعین چونکہ صحابہ سے ملنے والے ہیں اس لئے کسی تابعی کو آثار سے یہ معلوم ہو گیا ہو کہ یہ اختلاف کسی محاورے کی بناء پر ہے یا اسرائیلیات کی بنا پر ہے۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی بابت کچھ نہیں سنا تو ایسی صورت میں بوجہ اہل زبان ہونے کے تابعی بھی رائے دینے کا حقدار ہے۔اسی طرح اگر تابعی کو علم ہو کہ فلاں صحابی نے فلاں محاورے کی بنا پر یا اسرائیلیات سے لے کر فلاں آیہ کی تفسیر کی ہے اور باقی صحابہ کی موافقت ومخالفت کا تابعی کو علم نہ ہو تو اس صورت میں بھی تابعی اس صحابی سے اختلاف کر سکتا ہے،کیونکہ اہل زبان ہونے میں وہ صحابی کے ساتھ برابر ہے اوریہ باتیں تابعین کو تو آسانی سے معلوم ہو سکتی تھیں۔کیونکہ وہ صحابہ سے ملنے والے تھے۔ 2۔ اقوالِ صحابہ کرام کی عدمِ حجیت کے قائلین کے دوسرے مؤقف کا جواب یہ ہے کہ ’’ محدثین جوکہتے ہیں کہ قولِ صحابی حجّت نہیں یا موقوف حجّت نہیں۔تواس کیلئے دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ وہ تفسیر نہ ہو کیونکہ تفسیر کے بارے ہم شوکانی(1250ھ)اور نواب صاحب(1307ھ؍1890م)اور دیگر بڑے بڑے محدثین مثلاً ابن جریر(310ھ)،ابن کثیر(774ھ)وغیرہ سے نقل کر چکے ہیں کہ کلام اللہ کی تفسیر کا ذریعہ سنت کے بعد قول صحابی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ وہ امام ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ جن کی ساری عمر ردّ تقلید اور رد بدعت میں گذری وہ بھی اسی پر زور دیتے ہیں۔اسی طرح جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ بھی الاتقان میں ابن تیمیہ سے ہی نقل فرماتے ہیں۔ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ ’الصواعق المرسلہ‘ میں فرماتے ہیں: ’’اگر قرآن مجید کا سمجھنا صرف اشعار عرب اور غرائب لغت اور کلمات وحشیہ اور افہام جہمیہ و معطلہ کے ذریعہ سے ہو،نہ کہ احادیث اور اقوال سلف کے ذریعہ سے۔تو کتاب اور سنت بیکا رہو جائیں گی اور ان سے استدلال کرنا صحیح نہ ہو گا اور مجوس کے چیلے اور بے دینوں کے وارث اور فلاسفہ کے شاگرد اور معتزلہ ہمارے معتمد علیہ ہوں گے۔‘‘[2] شوکانی رحمہ اللہ(1250ھ)فرماتے ہیں: ’’صحابی یا تابعی کی تفسیر اگر منقولات شرعیہ میں سے ہو تو وہ سب پر مقدم ہے اور اگر منقولات شرعیہ میں سے نہ ہوتو وہ اس
Flag Counter