اختلاف کی صورت میں بعض اقوال کو بعض پرترجیح دیں گے ورنہ إذا تعارضا تساقطا پر عمل کریں گے۔لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اقوال فی نفسہٖ حجت نہیں ہیں کیونکہ پھریہ بھی لازم آئے گا کہ قرآن و حدیث بھی حجت نہیں کیونکہ ان میں بھی کبھی اختلاف واقع ہوتا ہے۔خواہ ہماری سمجھ کے اعتبار ہی سے ہو۔
تفسیر میں جب صحابہ کا ایسا ا ختلاف ہو کہ اس کی موافقت ذرا مشکل ہو اور ترجیح کی کوئی صورت نہ ہو تو نواب صدیق الحسن(1890ء)کا خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اقوالِ صحابہ حجت نہیں مگر ان کے اقوال سے نکلنا کسی صورت ان کے نزدیک درست نہیں اس بارے میں ان کی تفسیر کے مختلف مقامات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے اختلافات کی صورت میں وہ توقف یا پھر اقوال تابعین کی طرف رجوع کے قائل ہیں۔چنانچہ آیت کریمہ﴿وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ﴾[1] میں اور دیگر کئی مقامات میں انہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔
ہاں اکیلے صحابی کے قول میں جو فتویٰ کی قسم کا ہو اور کوئی دوسرا صحابی اس کا موافق مخالف معلوم نہ ہو اس میں بے شک محدثین کا اختلاف ہے مگر محققین محدثین اس پر ہیں کہ حجّت ہے بلکہ فقہائے اربعہ اسی پر ہیں۔امام شافعی رحمہ اللہ(204ھ)سے جو امام نووی رحمہ اللہ(676ھ)نے مقدمہ مسلم[2] میں اور بعض اوروں نے غیر حجت ہونا نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قولِ جدید ہے تو اس کا جواب اعلام الموقعین میں بہت عمدہ دیا گیا ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی اس بات کی نسبت کوئی تصریح نہیں پائی گئی بلکہ ان کے بعض فتاو وں سے یہ بات استنباط کی گئی ہے۔اور امام شافعی رحمہ اللہ نے قول جدید میں تصریح کی ہے کہ قول صحابی کی مخالفت کرنا گمراہی ہے تو پھر کس طرح کہاجاسکتا ہے کہ ان کے نزدیک(اقوالِ صحابہ)حجت نہیں۔قول جدید میں ہے:
’’ علم کے پانچ طبقے ہیں پہلا کتاب وسنت،دوسرا اجماع جبکہ کتاب و سنت نہ ہو۔تیسرا قول صحابی جبکہ اس کاکوئی مخالف معلوم نہ ہو،چوتھا صحابہ کے اختلافی اقوال،پانچواں قیاس۔‘‘[3]
دیکھئے ’قولِ جدید‘ میں امام شافعی رحمہ اللہ نے علم کے پانچ طبقے کئے ہیں اور ظاہر ہے کہ تقسیم سے مقصود درجہ بدرجہ استدلال بتلانا ہے یعنی پہلے کتاب و سنت کے ساتھ استدلال کرنا چاہئے پھر اجماع کے ساتھ پھر قول صحابی کے ساتھ جس کا مخالف معلوم نہ ہو پھر اختلافی اقوال میں سے راجح کے ساتھ پھر قیاس کے ساتھ۔پس معلوم ہوا کہ قول صحابی ان کے نزدیک حجت ہے۔
جیسے پسلی توڑنے کے مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ایک اونٹ دیت ہے اور دلیل کے طور پر اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ(23ھ)کا قول پیش کیا ہے۔اسی طرح میراث کے مسئلوں میں سیدنا زید بن ثابت کے قول سے استدلال کرتے ہیں۔اگر قول صحابی ان کے نزدیک حجت نہ ہوتا تو اس کی وجہ سے قیاس کو جو ان کے نزدیک شرعی دلیل ہے کس طرح چھوڑسکتے تھے۔[4]
|