Maktaba Wahhabi

142 - 535
آیت کریمہ﴿وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ[1]کے معنی ہیں کہ جو سچ لائے اور سچ کی تصدیق کرے۔مگر کوئی کہتا ہے کہ سچ لانے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔کوئی کہتا ہے جبرئیل مراد ہیں اور سچ کی تصدیق کرنے والے سے مراد کوئی کہتا ہے ابوبکر ہیں،کوئی کہتا ہے سارے مومن مراد ہیں۔[2]سو اس سے حصر مقصود نہیں بلکہ ایک آدھ کامل نوع کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ 3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ایک لفظ مشترک ہو یعنی کئی معانی رکھتا ہو۔ایک صحابی نے ایک ذکر کر دیا،دوسرے نے دوسرا یا ایک صحابی نے دو معنی دو وقتوں میں ذکرکر دئیے یا تو اس لئے کہ وہ آیت دو مرتبہ اتری ہے۔ایک مرتبہ ایک معنی مراد ہے دوسری مرتبہ دوسرا معنی،جیسے آیتِ وضو میں کہتے ہیں کہ مسح پاؤں کا حکم موزوں کے وقت ہے اور دھونے کا حکم بغیر موزوں کے یا اس لئے کہ دونوں معنی اکٹھے ارادہ کرنے جائز ہیں۔چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ اس کے قائل ہیں اور بعض شافعیہ کے نزدیک حقیقت مجاز کا اکٹھے مراد ہونا جائز ہے جیسے صلوٰۃ کی نسبت جب اللہ کی طرف ہو تو اس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں اور جب فرشتوں کی طرف نسبت ہو تو اس کے معنی استغفار کے ہوتے ہیں۔اور آیت کریمہ﴿إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ[3]میں چونکہ دونوں کی طرف نسبت کی ہے،اس لئے دونوں مراد ہوں گے خاص کر جب کہ وہاں فہم کا بالکل دخل نہ ہو،جیسے﴿وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ[4] میں تقریباً اسی قسم کا اختلاف ہے مثلاً بعض کہتے ہیں انبیاء مراد ہیں اوربعض کہتے ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں،کوئی کچھ اور کہتا ہے تو اس میں فہم کا کوئی دخل نہیں۔اسی طرح آیت کریمہ﴿وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ[5] میں ہے کیونکہ شفع سے مراد مخلوق اور وتر سے مراد اللہ۔اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں یا شفع سے مراد صبح کی نماز اور وتر سے مراد مغرب کی نماز اور دس راتوں سے مراد رمضان کا آخری دہا کہ اسی طرح دوسرے معانی میں فہم کا دخل نہیں کیونکہ عبارت کے سیاق و سباق سے کچھ معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ قریب قریب مبہمات کے ہے اور مبہمات کی بابت ہم بحوالۂ اتقان بتا چکے ہیں کہ وہ محض نقل کی قسم سے ہے اور صحابہ تفسیر میں بہت احتیاط کیا کرتے تھے تو ضرور ہے کہ یہ مرفوع ہوں اورمرفوع احادیث میں موافقت کی یہی صورت ہےکہ سب معانی مراد ہوں یاسند کے رو سے بعض کوبعض پر ترجیح دی جائے۔ 4۔ دو لفظ قریب المعنی ہیں ایک صحابی نے ایک لفظ بول دیا دوسرے نے دوسرا یا ایک صحابی نے کسی وقت کوئی لفظ بول دیا یا دوسرے وقت کوئی اور۔جیسے تفسیر خازن میں آیت کریمہ﴿وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ[6]کی تفسیر میں صدق کے کئی معانی کئے
Flag Counter