Maktaba Wahhabi

141 - 535
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک لفظ مشترک ہوتا ہے یعنی اس کے کئی معانی ہوتے ہیں جیسے قسورة کے معنی تیر اندازی کرنے والے کے بھی ہیں اور شیر کے بھی اور عسعس کے معنی رات کے آنے کی بھی ہیں اور جانے کے بھی۔ اور کبھی لفظ کے کئی معانی نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی،عام معنی ہوتا ہے۔لیکن مراد ایک نوع یا ایک شخص ہے جیسے آیہ کریمہ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى﴾کی ضمیریں اور لفظ﴿وَالْفَجْرِ()وَلَيَالٍ عَشْرٍ()وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾یا مثل اس کے،پس ایسے موقع پرکبھی جائز ہوتا ہے کہ سارے معانی مراد ہوں اور کبھی جائز نہیں ہوتا پس اول(یعنی سارے معانی کا مراد ہونا یا ا س لئے ہے کہ آیت دو مرتبہ اتری ہے پس کبھی یہ معنی مراد ہوا کبھی وہ یا ا س لئے کہ لفظ مشترک ہے دونوں معنی ارادہ کرنے جائز ہیں،یا اس لئے کہ لفظ عام ہے اور مخصص کوئی شے نہیں لیکن یہ قسم جبکہ اس میں دو قول(صحابہ سے)ثابت ہو جائیں۔دوسری قسم میں داخل ہو گی۔اور ان اقوال سے جن میں بعض لوگوں نے اختلاف سمجھا ہے یہ ہے کہ صحابہ بعض دفعہ معانی سے الفاظ قریب المعنی کے ساتھ تفسیر کرتے ہیں جیسے بعض نے تُرْتَهَن(یعنی گروی کیا جائے)کے ساتھ کی ہے کیونکہ ہر لفظ ان سے دوسرے کے قریب المعنی ہے۔‘‘[1] اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اختلاف کی کل چار صورتیں ہیں۔ 1۔ ایک یہ کہ مراد ایک ہی ہے وصف الگ الگ ہوں۔چنانچہ﴿الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾کی تفسیر میں بعض سلف نے کسی وصف کے ساتھ تفسیر کی ہے۔بعض نے کسی کے ساتھ مگر سب سے مراد ایک ہی ہے یعنی رضائے الٰہی کے کام،عام محاورے میں اس کی مثال ایسی ہے جیسے مجلس میں ایک شخص ہے اس کے سر پر پگڑی ہے اور گلے میں قمیص ہے اور ہاتھ میں رومال ہے،اب اس کو کوئی شخص بلانا چاہے تو یوں بھی کہہ سکتا ہے کہ پگڑی والے کو بلاؤ،یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ قمیض والے کو بلاؤاور یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جس کے ہاتھ میں رومال ہے اس کو بلاؤ۔ 2۔ لفظ عام ہے لیکن صحابی تفسیر کرنے کے وقت مثال کے طور پر یا سامع کو تنبیہ کرنے کی غرض سے ایک آدھ نوع پراکتفاء کرتا ہے جیسے﴿سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ[2] کے معنی ہیں کہ جو واجبات کے ادا کرنے اور محرمات سے بچنے کے علاوہ فضائل اعمال میں بھی کوشش کرے لیکن صحابی نے تفسیر کے وقت فضائلِ اعمال کی صر ف ایک ہی نوع ذکر کر دی جیسے نماز اوّل وقت پڑھنا یا فرض زکوٰۃ کے علاوہ احسان و مروت کرنا۔اسی طرح آیتِ کریمہ﴿وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ[3](یعنی اللہ جانتا ہے جگہ پھرنے تمہارے کی اور ٹھہرنے تمہارے کی)میں کوئی کہتا ہے پھرنے کی جگہ سے دنیا مراد ہے اور ٹھہرنے کی جگہ سے جنت ودوزخ۔اور کوئی کہتا ہے کہ پھر نا باپوں کی پیٹھوں سے ماؤں کے رحموں کی طرف اور ٹھہرنا دنیا میں اور قبروں میں۔اسی طرح آیت کریمہ﴿فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ[4](یعنی ٹھہرنے اور سونپنے کی جگہ)میں تقریباً اسی قسم کے احتمالات ہیں اسی طرح
Flag Counter