Maktaba Wahhabi

140 - 535
پھر کہا ہے وهٰذا أحسن الوجهین یعنی یہ معنی پہلے سے اچھے ہیں۔[1] 2۔ تفسیر بمنزلہ روایت بالمعنیٰ کے ہے اور روایت بالمعنیٰ میں دوسرے شخص کے کلام کا مطلب اپنے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے پس بعینہٖ یہ صورت تفسیر میں ہوتی ہے کیونکہ دونوں لغت اور محاورات کے ساتھ متکلّم کی مراد پر اطلاع پائی جاتی ہے صرف اتنا ہے کہ روایت بالمعنیٰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ہوتی ہے اور تفسیر میں یہ نسبت ضروری نہیں بلکہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اللہ کی یہ مراد ہے اور فتویٰ چونکہ رائے اور فہم کی قسم سے ہے یعنی اس میں اجتہاد کا احتمال قوی ہے اس لئے اسے روایت نہیں کہتے۔ 3۔ تفسیر میں اختلاف،اوّل تو ہوتا ہی نہیں اگر کہیں ہو تو بہت کم ہوتا ہے اور فتویٰ میں ا س سے زیادہ ہوتا ہے اسی لئے صحابہ کا تفسیر میں اختلاف بہت کم ہے۔جو لوگ کہتے ہیں کہ تفسیر صحابہ میں دیگرعموم کی نسبت زیادہ اختلافات ہیں وہ فنِ تفسیر ہی سے ناواقف ہیں۔ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’تفسیر سلف میں اختلاف کم ہے اور جو اختلاف ان سے صحّت کے ساتھ ثابت ہے اکثر وہ تنوّع ہے،اختلاف نہیں۔یعنی اس کی موافقت ہو سکتی ہے اور یہ دوقسم کا ہے ایک یہ کہ ایک صحابی ایک عبارت کے ساتھ مراد کو بیان کرتا ہے جو دوسرے صحابی کی عبارت سے الگ ہوتی ہے(یعنی،اول عبارت کا معنی دوسری عبارت کے معنی سے مختلف ہوتا ہے مگر ان دونوں معانوں سے ایک ہی شے مراد ہوتی ہے جیسے آیت کریمہ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾میں صراط مستقیم کی تفسیر بعض نے اتباعِ قرآن کے ساتھ کی ہے اور بعض نے اسلام کے ساتھ کی ہے۔پس یہ دونوں قول متفق ہیں کیونکہ دین اسلام اتباع قرآن ہی ہے۔لیکن ہر ایک نے ایک وصف ذکر کیا جو دوسرے سے مختلف جیسے صراط کا لفظ تیسرے وصف کی طرف اشارہ ہے،یعنی اتباع قرآن،دین اسلام،صراط تینوں وصف الگ الگ ہیں جن سے مراد ایک ہی شے ہے،اسی طرح قول اس شخص کا ہے جس نے صراط مستقیم کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے اہل سنت والجماعت مراد ہیں اور اسی طرح قول اس شخص کا ہے جس نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مراد ہے اور مثل اس کے۔پس ان سب کی مراد ایک ہی شے ہے،لیکن صفات الگ الگ ذکر کی ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ صحابی ایک عام شے سے اس کے بعض انواع بطور تمثیل کے اور سامع کو کسی نوع پرتنبیہ کرنے کی غرض سے ذکر کرے۔نہ کہ حد بندی کے طور پر کہ یہی مراد ہے اس کی مثال آیت کریمہ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا﴾ہے کیونکہ معلوم ہے کہ ظالم وہ شخص ہے جو واجبات کو ضائع کرے اور محرمات کامرتکب ہو اور درمیانی چال والا وہ ہے جو واجبات ادا کرے اور محرمات کا تارک ہو اور سابق میں وہ شخص داخل ہے جو واجبات ادا کرنے کے علاوہ حسنات(فضائل و اعمال)کے ساتھ قربِ الٰہی ڈھونڈتا رہے پس درمیانی چال والے اصحاب الیمین ہیں اور سبقت کرنے والے مقربین ہیں۔پھر ہر ایک نے ان میں سے انواع طاعات سے ایک طاعت کا ذکر کیا ہے۔مثلاً ایک نے کہا ہے کہ سابق وہ ہے جو نماز اول وقت پڑھے اور درمیانی چال والا وہ ہے جو درمیانے وقت میں پڑھے اور ظالم وہ ہے جو عصر کو آفتاب زرد ہونے تک موخر کر دے اور کسی نے کہا کہ سابق وہ ہے جو زکوٰۃ کے علاوہ ویسے بھی احسان کرے اور درمیانی چال والا وہ ہے جو صرف فرض زکوٰۃ ادا کرے اور ظالم مانع زکوٰۃ ہے۔
Flag Counter