Maktaba Wahhabi

121 - 535
(باقی سب قرّاء کرام)[1] مفسرين كرام نے واضح فرمایا ہے: ’’ جمہور کی قراء ت کے موافق یہ معنی ہوں گے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سے اس کی پوچھ گچھ نہ ہو گی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے۔آپ کے ذمّہ توصرف پہنچادینا ہے۔اور امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت پر سو ال سے روکنا شدتِ عذاب سے کنایہ ہو گا،جیسے کہا جاتا ہےکہ اس کا حال مت پوچھ،یعنی وہ بہت تکلیف میں ہے۔‘‘[2] امام قرطبی رحمہ اللہ(671ھ)نفی والی قراء ت کا معنی بیان کرتے ہیں: "والمعنٰی إِنّا أرسلنك بالحقّ بشیرا ونذیرا غیرَ مسئولٍ عنهم"[3] کہ معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا،ڈرانے والا بنا کربھیجا ہے،اس حال میں کہ ان کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہ ہو گا۔ اور نہی والی قراء ت کے بارے میں رقمطراز ہیں: "وفيه وجهان:أحدهما أنه نهيٌ عن السّؤال عمن عصیٰ وکفر من الأحیاء؛ لأنّه قد یتغیّر حاله فینتقل عن الکفر إلى الإیمان وعن المعصية إلی الطّاعة،والثاني وهو الأظهر أنه نهيٌ عن السّؤال عمّن ماتَ على كفره ومعصيته"[4] کہ اس میں دوصورتیں ہیں:ایک یہ کہ یہ حکم زندوں میں سے گناہگاراورکفارکے بارے میں سوال سے روکنے کیلئے ہو،کیونکہ ان کاحال کفرسے ایمان کی طرف،اورگناہ سے اطاعت کی طرف تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔اور دوسرا جو زیادہ ظاہر ہےکہ یہ حکم کفر اور معصیت پر مرنے والے لوگوں کے بارے میں سوال سے روکنے کیلئے ہو۔ خلاصہ یہ ہوا کہ نفی والی قراء ت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اصحابِ جہنّم کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال نہیں ہو گا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لائے۔اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری صرف پہنچا دیناتھی۔اور نہی والی قرا ء ت سے یہ معنی سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ عزو جل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع فرمادیا ہے،جن کے بارے میں جہنّم کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اس معنی کی تائید ایک دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے،فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ[5]
Flag Counter