Maktaba Wahhabi

122 - 535
کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان کے لئے استغفار کریں یانہ کریں،اگرآپ ان کے لئے سترمرتبہ بھی استغفارکریں گے،توبھی اللہ عزو جل ان کومعاف نہیں فرمائے گا؛اس لئے کہ انہوں نے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے،اوراللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں عطا فرماتا۔ 4۔ ﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا[1] اس آیت كريمہ میں کلمہ﴿لِيَذَّكَّرُوا﴾میں دو قراء تیں ہیں:لِيَذْكُرُوا(امام حمزه،کسائی اور خلف)اور لِیَذَّکَّرُوا(باقی سب قرّاء کرام)[2] امام قیسی رحمہ اللہ(437ھ)لکھتے ہیں: "فالتّشدید للتدبّر،والتّخفیف للذّکر بعد النّسیان." [3] کہ تشدیدتدبر کے معنی کیلئے،اورتخفیف بھول جانے کے بعد یاد کرنے کے معنی کے لئے ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "والتّذكّر:الاتّعاظ والتّدبّر"[4] كہ تذکّرکا مفہوم حصولِ نصیحت اور انتہائی تدبّر كيلئے مستعمل ہے۔ محمود آلوسی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: "وقرأ حمزة والکسائي هنا وفي الفرقان﴿لِیَذْکُرُوامن الذّکر الّذي بمعنی التذکّر ضدّ النّسیان والغفلة،والتذکّر على القراءة الأولى بمعنی الاتّعاظ"[5] كہ امام حمزہ اورکسائی رحمہما اللہ نے اس کلمہ کو یہاں اورسورۂ فرقان میں مادہ ذکر سے پڑھا ہے،جوکہ تذکر کے معنی میں ہے اور نسیان اور غفلت کی ضدہے۔جبکہ تذکّر پہلی قراء ت کے مطابق نصیحت حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ اس آیت میں دو قراء تیں ہونے کی وجہ سے حکم کے دو پہلو نکل آئے۔پہلا قرآن کا ذکر یعنی اس کی تلاوت کرنا اور یاد کرنا۔دوسرا قرآن سے وعظ ونصیحت حاصل کرنا۔اور یہ دو ایسے معنی ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں پائے جا سکتے۔یعنی ذکر کے بغیر نصیحت حاصل نہیں ہو سکتی اور نصیحت حاصل کئے بغیر ذکرناقص ہے۔چنانچہ ان معانی کی تائید ایک اور آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے،فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter