(باقی قراء)[1]
فَتَبَیَّنُوا کا مادہ بین ہے اور یہ باب تفعل ہے۔اور دوسری قرا ت فَتَثَبَّتُوا بھی باب تفعّل سے ہے،لیکن اس کا مادہ ثبت ہے۔
امام قیسی رحمہ اللہ(437ھ)لکھتے ہیں:
"ولیس کل من تثبّت في أمر تبیّنه،قد یتثبّت ولا یتبیّن له الأمر،فالتبیّن أعمّ من التثبّت في المعنی لاشتماله على التثبّت"[2]
کہ ضروری نہیں ہے کہ جہاں معاملہ کا ثبوت ہو وہ مبیّن ہو* یہ ممکن ہے كہ ایک بات ثابت تو ہو جائے لیکن واضح پھر بھی نہ ہو البتہ تبیین کے معنی میں تثبیت کی نسبت زیادہ عمومیت پائی جاتی ہے،کیونکہ تبیین تثبیت کو بھی شامل ہے۔
اسی طرح امام ابن عطیہ رحمہ اللہ(542ھ)لکھتے ہیں:
"وقال قوم:فتبیّنوا أبلغ وأشدّ من فتثبّتوا ؛ لأٔنّ المتثبّت قد لا یتبیّن"[3]
كہ ایک قوم کا کہنا ہے کہ لفظ فتبیّنوا،فتثبّتوا سے زیادہ بلیغ ہے،کیونکہ ہر متثبت چیز متبین نہیں ہوتی۔
گویا ان دونوں حضرات کے نزدیک تبیین عام ہے،اس کے معنی میں ثبوت بھی پایا جاتا ہے۔لیکن تثبت خاص ہے،اس میں تبیّن اور وضاحت ضروری نہیں ہے۔یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی معاملہ کاثبوت اوردلیل تومل جائے لیکن وہ واضح اورقابل فہم نہ ہو۔
اگرچہ یہ دونوں قراءتیں قریب المعنیٰ تو ہیں لیکن ان دونوں کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی معاملہ کی وضاحت اور تبیین میں تثبّت یعنی تحمل اور اتنا ٹھہراؤ اختیار کیا جائے،اور جلد بازی نہ کی جائے،یہاں تک کہ حقیقت بالکل کھل کر واضح ہو جائے۔
جیساکہ مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ(1974ء)لکھتے ہیں:
’’فتبیّنوا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ایسی خبرپر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک اس کی پوری وضاحت نہ کر لی جائے اور ایک قراء ت میں یہ لفظ فتثبتوا پڑھا گیا ہے یعنی اس کی دلیل حاصل کرلو۔‘‘[4]
ان دونوں قراءتوں کامعنی سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی معاملہ کی تحقیق میں معلومات کوہراعتبارسے جانچنا اور بغیر تحقیق کے کسی خبر کو قبول کرنا بعد میں شرمندگی اور افسوس کا باعث ہو سکتا ہے۔
3۔ ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ﴾[5]
اس آیتِ کریمہ میں کلمہ﴿وَلَاتُسْئَلُ﴾میں دو قراء تیں ہیں:وَلَا تَسْئَلْ(امام نافع اور یعقوب رحمہما اللہ)اور وَلَا تُسْئَلُ
|