Maktaba Wahhabi

336 - 495
سوال۔مظفر گڑھ سے عمر فا روق دریا فت کر تے ہیں کہ بچی کی شا دی کب کر نا چا ہیے ہم نے سنا ہے کہ اگر بر وقت شا دی نہ کی جا ئے تو جتنے مخصوص ایا م اپنے والد کے گھر گزارے گی اتنے ہی قتل نا حق والد کے نا مہ اعما ل میں لکھے جا ئیں گے ۔ جواب ۔جب بچی با لغ ہو جا ئے تو منا سب رشتہ ملنے پر اس کا نکا ح کر دینا چا ہیے اس کے متعلق دانستہ طو ر پر تا خیر کر نا شر عاً درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فر ما یا تھا کہ تین چیز وں کے متعلق دیر نہ کر نا ۔ (1)جب نماز کا وقت ہو جا ئے تو اس کی ادائیگی کا فکر ہو نا چا ہیے ۔ (2)جب جنا زہ تیا ر ہو جا ئے تو اس میں بھی دیر نہیں لگا نا چا ہیے ۔ (3)جب بچی کا ہم پلہ مل جا ئے تو اس کے نکا ح میں لیت و لعل نہیں کر نا چا ہیے ۔(ترمذی) نیز حدیث میں ہے :"کہ جب رشتہ کے متعلق تم سے کو ئی ایسا آدمی را بطہ کر تا ہے جس کا دین اور اخلا ق تمہیں پسند ہے تو اپنی بچی کا اس سے نکا ح کر دو اگر ایسا نہیں کر و گے تو بہت بڑا فسا د اور عظیم فتنہ بر پا ہو گا۔ (ترمذی ) ان احا دیث کے پیش نظر کو ئی بھی با عزت سرپر ست اپنی جو ان بچی کو گھر بٹھا نا گو ارا نہیں کر تا ،بعض اوقا ت حا لا ت اجا زت نہیں دیتے یا منا سب رشتہ نہیں ملتا یا ما لی طو ر پر کچھ کمزو ری ہو تی ہے ایسے حا لا ت میں تا خیر ہو جا ئے تو امید ہے موا خذہ نہیں ہو گا لیکن اگر حا لا ت سا ز گا ر ہو ں، منا سب رشتہ بھی ملتا ہے اور شرا ئط پر پو را اترتا ہے تو ایسے حا لا ت میں بچی کی شا دی نہ کر نا جر م ہے، اگر بچی سے کو ئی گنا ہ سر زد ہو جا ئے تو والد یا سر پر ست سے ضرور مواخذاہ ہوگا ۔ باقی سوا ل میں ذکر کر دہ ہمارے ہا ں رائج روایت کہ مخصوص ایا م گز رنے کا خو د سا ختہ مفروضہ جہلا کا مسئلہ ہے کہ اتنے ہی قتل وا لد کے کھا تہ میں لکھے جاتے ہیں اس کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ہے، بہر حا ل ایک عز ت دا ر مسلمان کو چاہیے کہ جب بھی بچی جو ان ہو جا ئے تو اس کے ہا تھ پیلے کر نے کا بہا نہ بناکر دا نستہ ٹا ل مٹو ل نہ کر ے بلکہ جلد ی اس کا نکا ح کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدو ش ہو جا ئے ۔(واللہ اعلم با لصواب ) سوال۔ملتا ن سے محمد ابرا ہیم دریا فت کر تے ہیں کہ مجھے ایک محفل نکاح میں جا نے کا اتفا ق ہو ا ،اس مو قع پر ایجا ب و قبو ل کی رسم اس کے باپ نے ادا کی، کیا اس طرح نکا ح ہو جا تا ہے، قرآن و حد یث کی رو شنی میں جو اب دیں ۔ جو اب ۔نکا ح زند گی کا ایک ایسا بند ھن ہے جو انتہا ئی غو ر و غو ض سنجیدگی اور متا نت کا متقا ضی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس معا شر تی معا ملہ کو طے کر تے وقت فر یقین کا عا قل و با لغ ہو نے کی صورت میں خو د مختا ر ہو نا ضروری قرار دیا گیا ہے اگر کسی مو قع پر ایسی صورت حا ل کا سامنا کر نا پڑے جہا ں عقل و بلو غ کے بغیر ہی نکا ح نا گر یز ہو تو شر یعت اسلا میہ نے عا قل و با لغ ہو نے کے بعد ایسی سہو لتیں دی ہیں جن سے ان کی خود مختا ری کو پو را پو را تحفظ ملتا ہے، صورت مسئو لہ میں اگر لڑ کا نا با لغ ہے تو اس کا با پ اس کی طرف سے نیا بتاً ایجا ب و قبو ل کر سکتا ہے۔ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کا نکا ح بھی صغر سنی میں ہوا تھا اور ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف سے ایجا ب کا فر یضہ سر انجا م دیا تھا لیکن با لغ ہو نے کے بعد لڑکا یا لڑ کی صغر سنی یا زما نہ نابالغی میں کئے ہو ئے نکا ح کو نا پسند کر یں تو شر یعت نے لڑکی کو خیا ر بلو غ اور لڑکے کو طلا ق کی صورت میں حق "خلا صی "دیا ہے اگر لڑکا با لغ ہے تو والد اپنے لڑکے کی طرف سے صرف اس صورت میں قبو ل کر سکتا ہے جب لڑکے نے اسے اپنا وکیل مقرر کیاہو باپ کے علا و ہ کو ئی دوسرا بھی
Flag Counter