3 محترم جناب ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب مدیر ماہنامہ ’محدث‘ لاہور السلام علیکم! ’محدث‘ کا شمارہ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ بمطابق فروری ۲۰۱۰ء مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا۔یہ رسالہ شروع ہی سے ماشاء اللہ مذہبی، اَدبی اور تحقیقی رسالہ ہے، لیکن اس ماہ اس میں ایک مضمون ’’کیا یزید فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟‘‘ پڑھ کر درج ذیل سطور لکھنے پر مجبور ہوا ہوں ۔ ہمیں بیسویں صدی عیسوی کی ستر کی دہائی یاد آگئی جب مولانا مودودی مرحوم اپنی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘ لکھ کر اس پر اعتراضات کاجواب دے رہے تھے۔اس وقت کے جید اور محقق علما نے ان پر کافی گرفت کی اور مولاناصاحب کو اپنے موقف سے رجوع کرنے کا مخلصانہ مشورہ دیا، لیکن اُنہوں نے یہ کہہ کر اسے قبول نہ کیا کہ میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ سابقہ تواریخ میں جو کچھ لکھا تھا، وہ دہرایا ہے۔ اس مضمون میں یہی طرزِ عمل جناب ابوجابر عبداللہ دامانوی صاحب کا نظر آیا۔مزید ان کاسارا مضمون تضادات سے بھرا ہے کہیں وہ واقعات کو تسلیم کرتے ہیں اور کہیں انکار کردیتے ہیں ۔ کیا نعوذ باللہ کسی کو بخشنے یا عذاب دینے کے اختیارات وہ اپنے ہاتھ میں سمجھتے ہیں جبکہ یہ سب چیزیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں ۔ ایسے متنازعہ موضوع کومحدث ایسے رسالہ میں جگہ دینا مناسب نہ تھا اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم آپ کے والد محترم جناب حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کی مجلس میں بیٹھے تھے تو اُنہوں نے فرمایا کہ واقعہ کربلا ۶۰ہجری میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ اس کے ستر اسّی سال بعد ایک غالی شیعہ داستان گو مصنف ابومحنف؟؟؟ یحییٰ بن لوط نے ایک کتاب ’مقتل حسین‘ لکھی اور اس میں بے سند، بے سروپا اور مبالغہ آمیز واقعات لکھے جن کو لے کر اگلے مؤرخین بھی چلتے رہے حالانکہ صحابہ، تابعین،تبع تابعین رحمہم اللہ کے دور میں اس واقعے کا اتنا چرچا اس دور کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ اس واقعہ کی اچانک تشہیر شرو ع ہونے کی وجہ یہ تھی کہ عین اس وقت بنو عباس نے بنواُمیہ کا تختہ الٹ کر اپنی امارت قائم کی تھی اور اس کو مستحکم کرنے کے لیے بنواُمیہ پر شدید ترین مظالم ڈھائے پھر جن کو چھپانے کے لیے ان پر اسی طرح کے |