Maktaba Wahhabi

73 - 79
کسی اہم واقعہ کی تلاش تھی جو واقعہ کربلا کی صورت میں ان کو مل گیا جس کی ہر طرح سے تشہیر کروانے کی اُنہوں نے کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ مضمون کے آخری پیرا میں دامانوی صاحب نے لکھا ہے کہ یزید کے سیاہ کارنامے مثلاً سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کا قتل، مدینہ پر شاہی فوج کا حملہ اور اس کو تاخت و تاراج کرنا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کاقتل عام اور مدینہ کے عوام کو خوفزدہ کرنا ایسے کارنامے ہیں جن کو اُمت مسلمہ فراموش نہیں کرسکی۔ اگر ان کا تاریخی مطالعہ وافر ہے تو کیا وہ ان سوالات کا جواب دیں گے کہ درج ذیل واقعات کیا کم اندوہناک اور غم ناک تھے کہ ان کوبھلایا جاسکے: 1. ابولؤلؤفیروز نامی ایرانی غلام کے ہاتھوں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت۔ 2. مدینہ شریف میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ، ان کی مظلومانہ شہادت اور ان کی اہلیہ محترمہ کی انگلیاں کاٹ دینا۔ مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز ادا کرنے سے جبراً روکنا اور ان کے جسد مبارک کا تین دن سے بے گورو کفن پڑا رہنا اور پھر ان کو اس وقت کے جنت البقیع میں دفن نہ ہونے دینا۔ 3. حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی مسجد میں شہید کردینا۔ 4. خلافت ِعباسیہ کے بانی عبداللہ سفاح اور اس کے چچا عبداللہ بن علی نے ۱۳۰ھ میں دمشق پر قبضہ کیاتو جشن فتح منانے کے بہانے بنو اُمیہ کے تمام بڑوں ، چھوٹوں ، عورتوں کو یہ کہہ کر مدعو کیا کہ آؤ ہم سب قریش ہیں ، آپ ہماری امارت کو تسلیم کرلیں ، ہم آپ سب کو عزت اور امان دیں گے۔ ان میں بنواُمیہ کے وہ اشخاص بھی شامل تھے جو بنوعباس کے حامی تھے۔ انہوں نے ان سب کو جن کی تعداد ۹۰ تھی، دعوت پر بلایا اور بجائے کھانا کھلانے کے ان دونوں نے بنواُمیہ کے تمام افراد کو قتل کروا دیا اور ان کی لاشوں پر کپڑے اور دستر خوان بچھوا کر ضیافت اُڑائی۔اس طرح اُنہوں نے اپنی بدعہدی نخوت اور شقاوتِ قلبی کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا۔اُنہوں نے یہ حرکت کرکے عربوں کی اِسلامی اور جاہلیت کی تاریخ سے غداری کی تھی حالانکہ ان میں دستور تھا کہ اگر کوئی کسی کے قریبی عزیز کا قاتل بھی کسی کے گھر میں پناہ لے لیتا تو وہ اس وقت تک اسے کچھ نہ کہتے جب تک وہاں سے چلا نہ جاتا۔ اس کے بعد انہوں نے کاتب ِوحی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر فوت شدہ
Flag Counter