’’لیس منا‘‘ أي من أھل سنتنا وطریقتنا،ولیس المراد بہ إخراجہ عن الدین‘‘ [فتح الباری: ج۳/ ص۱۶۳] آخر میں اس شاندار قراء ت نمبر کی اشاعت پر مکرر ہدیۂ تبریک قبول کیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نمبر کی تیاری اور اشاعت میں حصہ لینے والے تمام اہل علم وقلم اور منتظمین کو اجرعظیم عطا فرمائے اور اس میدان کے راہرو حضرات کے لیے اسے رُشد و رہنمائی کا ذریعہ بنائے۔ آمین! 2.مولانا یوسف انور ، فیصل آباد عزیز مکرم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اﷲ ! اُمید ہے آپ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہوں گے۔ مئی ۲۰۱۰ء کا ’محدث‘موصول ہوا۔ ’پاکستان میں نفاذِ شریعت کے اہم مراحل‘ کے زیرعنوان آپ کا اِداریہ ماشاء اللہ موضوع کی مناسبت سے خوب تر ہے۔ خصوصاً آئین و دستور کی تیاری کی اوّلین کوشش، قرار دادِ مقاصد کامتن اور ۳۱ علماے کرام کے ۲۲ نکات کی تفصیل و ترتیب نوجوان علما اور نئی نسل کی معلومات میں ایک اضافہ ہے۔ مجھے اس سلسلے میں جو عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ ان دونوں محاذوں پرعلماء اہلحدیث کی خدمات سرفہرست ہیں ۔ ۱۹۴۹ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی جس نے قرار دادِ مقاصد پاس کی، اس کی نوک پلک سنوارنے میں مشرقی پاکستان سے مولانا محمد اکرم رحمہ اللہ خان اور علامہ راغب رحمہ اللہ احسن کا نمایاں کردار تھا۔ ۳۱/ علماء کے ۲۲ نکات مرتب کرنے میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کا اہم رول ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ ان دنوں مسلم لیگ کے صدر چودھری خلیق الزمان نے علماے اسلام کو تضحیک کانشانہ بناتے ہوئے اخباری بیان دیا تھا کہ یہ علما جو نفاذِ اسلام کا مطالبہ کررہے ہیں مگر یہ لوگ کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ، ہم کس فرقہ کا اسلام نافذ کریں ؟ اس چیلنج کو مولانا غزنوی نے قبول کرتے ہوئے مجلس اَحرار کے ناظم دفتر ہمارے بزرگ دوست مولانا مجاہد الحسینی کو تمام مکاتب ِفکر کے علما کی طرف ایک مکتوب دے کر بھیجا۔ مولانا مجاہد الحسینی جو فیصل آباد میں مقیم ہیں اور اُنہوں نے ایک ملاقات میں مولانا کے ہاتھ کا لکھا ہوا وہ مکتوب مجھے دکھایا تھا۔ مولانا غزنوی نے اس میں لکھا تھا کہ ہمیں مل بیٹھ کر یہ چیلنج قبول کرتے |