Maktaba Wahhabi

67 - 79
نہیں کی۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس عبارت میں اسی حدیث کے معلول ہونے کا اشارہ کیا ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بکری کی خرید و فروخت کا حصہ صحیح بخاری کی شرط پرنہیں ،کیونکہ اس میں شبیب بن غرقدہ، قبیلے کے افراد سے روایت کرتے ہیں اور وہ مبہم ہیں اور علامہ ابن قطان، علامہ منذری وغیرہ نے یہ اعتراض کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حصہ امام بخاری کا مقصود نہیں بلکہ مقصود ’’الخیر معقود بنواصي الخیل‘‘ کے الفاظ ہیں ، لیکن اس کے لیے بلوغ المرام میں حافظ ابن حجر کے الفاظ سے اس کے معلول ہونے پر استدلال محل نظر ہے۔اس لیے کہ’’لم یسق لفظہ‘‘کا مفہوم اس کے متن کی روایت نہیں کی، جیساکہ آپ نے بیان فرمایا ہے۔ مزید غور طلب ہے، کیونکہ اس جملہ سے عموماً یہی مرادلیا جاتا ہے کہ اس کے الفاظ بیان نہیں کئے، ذکرنہیں کئے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا کہ ’’لم یسق لفظہ‘‘ درست نہیں ہے جیساکہ آپ نے بھی ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر کے ان الفاظ کو بیانِ علت پرمحمول کرنااس لیے بھی درست نہیں کہ فتح الباری میں اُنہوں نے حافظ ابن قطان وغیرہ کے اعتراض کا جواب دیا ہے، ان کے الفاظ ہیں : ’’لکن لیس بذلک ما یمنع تخریجہ ولا ما یحطہ عن شرطہ لأن الحي یمنع في العادۃ تواطؤھم علی الکذب… الخ‘‘ [فتح الباری: ج۶/ ص۶۳۵] اس کے بعد یہ کہنا کہ بلوغ المرام کے الفاظ بیانِ علت کے لیے ہیں ، بالکل درست نہیں ہے، وہ تو اس کی صحیح بخاری میں تخریج کا دفاع کرتے ہیں ۔ اُمید ہے آپ اس پر نظرثانی فرمائیں گے۔ 3. اسی طرح صفحہ۵۰۳ پر حدیث: ((لیس منا من لم یتغن بالقرآن)) کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’خوبصورت پڑھنے کی صلاحیت کے باوجود اگر خوبصورت نہ پڑھے تو اُمت سے خروج کی وعید کا مستحق ٹھہرے گا۔‘‘ ’’لیس منا‘‘ کے الفاظ سے ’اُمت سے خروج‘ کا مفہوم کشید کرنا اپنے اندر خارجیت کا عنصر لیے ہوئے ہے جبکہ اس کا صحیح مفہوم ’’لیس من أھل سنتنا و طریقتنا‘‘ کا ہے کہ یہ ہماری سنت اور ہمارا طریقہ نہیں ، جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لکھاہے:
Flag Counter