اسلام اور سائنس محمد عمران صدیقی کائنات پر غور و فکر قرآن اور جدید سائنس کی مشترکہ دلچسپی ! اِسلامی علمیت کابنیادی ماخذ وحی الٰہی یعنی قرآن و حدیث ہے اور ’جاہلیت ِجدیدہ‘ یعنی تہذیب ِ مغرب کی علمیت کا ماخذ ’وحی بیزار عقل‘ اور ’مذہب دشمن جذبات‘ ہیں ۔ اس ’وحی بیزار عقل‘ اور ’ مذہب دشمن جذبات ‘نے جس علمیت کو جنم دیا، وہ ’جدید سائنس‘ (نیچرل وسوشل) کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ ماخذ ِ علم کے اس بنیادی اور اساسی اختلاف کے باوجود بہت سے لوگوں نے بعض جزوی مشابہتوں کی بنا پر،جن کا کسی بھی علمیت ، چاہے وہ کافرانہ و مشرکانہ ہو یا اسلامی اور موحدانہ، میں پایا جانا ممکن ہوتا ہے بعض بڑے بڑے نتائج اخذ کئے ہیں ۔ اسلام میں بعض معاملات کو مشورہ کے ذریعے طے کرنے کی اجازت کو ’اسلامی جمہوریت ‘ بنا دینا اور صرف سود کی بعض شکلوں سے بچتے بچاتے بینکاری کے مروّجہ نظام کو ’اسلامی بینکاری‘ قرار دینا اس کی مثالیں ہیں ۔ ’کائنات پر غور وفکر‘ یقینا قرآن کا ایک اہم موضوع ہے اور جدید سائنس تو اسی مقصد کے لئے وجود میں آئی ہے۔ عنوان کی اس مشابہت سے بہت سے مسلمان سائنس کے اس قدر دلدادہ ہوئے کہ یہاں تک کہنے لگے کہ سائنس تو قرآن سے نکلا ہوا علم ہے اور اہل یورپ نے تو سائنس سیکھی ہی مسلمانوں سے ہے، جب وہ اَندلس کی درس گاہوں میں پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ پھر مسلمانوں میں سائنسدانوں کے نام گنوائے جانے لگے، اسلام اور سائنس کے عنوان سے کتابیں لکھی جانے لگیں جن میں مشترکہ علمیت کو اُجاگر کیا جاتا بعض تو یہاں تک بڑھے کہ اسلامی سائنس کی بنیادیں رکھنے لگے اور کئی ایک اس سے بھی آگے سائنس کو اسلام اور اسلام کو سائنس تک ثابت کرنے سے نہ ہچکچائے … غلام قومیں شاید اپنے آقاؤں کے سامنے اسی طرح بچھتی رہی ہوں گی۔ اس سارے فسانے میں اس بات پر غور کرنے کا ہمیں |