Maktaba Wahhabi

69 - 79
ہوئے متفقہ لائحہ عمل کی صورت میں جواب دینا چاہئے تاکہ قیامِ پاکستان کے بڑے مقصد کے حصول میں اس قسم کی رخنہ اندازی کا دروازہ ابتدا ہی میں بند کردیا جائے، چنانچہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی اس تحریک پر جنوری ۱۹۵۱ء میں کراچی میں مولانا سیدمحمد سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں آئندہ علماء کی تگ و تاز سے یہ ۲۲ نکات پر مشتمل دستاویز تیار کی گئی اور اسے اخبارات میں بھی مشتہر کیا گیا ،لیکن افسوس کہ اس راہنمائی سے فائدہ نہ اُٹھایا گیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق جب برسراقتدار آئے تو اُنہوں نے نفاذِ اسلام کا عزم کرتے ہوئے ممتاز علما سے رابطہ قائم کیا۔اُنہوں نے بڑے بڑے کنونشن بھی منعقد کئے۔ ایک اجلاس میں جس میں ان سطور کا راقم بھی موجود تھا، جنرل ضیاء نے چوہدری خلیق الزمان والی بات دہرائی اور ہاتھ لہراتے ہوئے کہا کہ کوئی فرقہ ہاتھ کو یہاں سے کاٹنے اور کوئی اُنگلیوں تک کاٹنے کو کہتا ہے، آخر کس کی بات مانی جائے؟اجلاس میں سناٹا سا چھا گیا، لیکن راقم الحروف نے اُٹھ کر جواب میں جنرل ضیاء سے کہا کہ یہ مسئلہ تو ابتداے قیامِ پاکستان کے وقت ہی ہمارے اکابر نے ۲۲ نکات کی صورت میں حل کردیا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے فوراً اپنے وزیر اطلاعات راجہ محمد ظفر الحق کو حکم دیا کہ ۲۲ نکات لائے جائیں ۔ چنانچہ تھوڑے وقت کے بعد ہی وزارت کے دفتر سے پرانی فائل لائی گئی جس میں ۳۱ علماء کے اسماے گرامی اور ان کے مرتب کردہ یہ ۲۲ نکات واضح تھے۔ راقم الحروف کی دوسری تجویزپر جنرل ضیاء نے حکم دیا کہ ان ۲۲ نکات کو قومی اخبارات کے صفحاتِ اوّل پر اشتہار کی صورت میں شائع کیا جائے نیز ان ۲۲ نکات کو جنرل صاحب(اپنے طور پر) نے ۱۹۷۳ء کے آئین کا حصہ بھی بنایا۔ آگے چل کر اس شمارہ میں ۱۹۸۶ء میں لاہور میں ’متحدہ شریعت محاذ‘ کے زیراہتمام جملہ مکاتب ِفکر کی نمائندہ کمیٹی نے شریعت بل کے جس ترمیمی مشورہ پراتفاق کرنے کا تذکرہ ہے، جو جامعہ نعیمیہ لاہور میں مولانا سمیع الحق نے پیش کیا، اس کی تدوین و ترتیب میں بھی آپ کے والد ِگرامی قدر اور جماعت کی متاعِ عزیز محترم حضرت حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کا بڑا حصہ ہے۔ مرکزی سطح پر مجلس شوریٰ میں مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ کی کاوشیں نظرانداز نہیں کی جاسکتیں ۔ اسی سلسلہ میں جنرل ضیاء الحق نے تفصیلات طے کرنے کے لیے مولانا ظفر احمد انصاری کی سربراہی میں انصاری کمیشن بھی تشکیل دیا تھا جس نے بڑی پیش رفت کی تھی۔ اس میں بھی اہلحدیث کی نمائندگی مولانا لکھوی بطورِ ممبر کمیشن بطریق اَحسن کرتے رہے تھے۔
Flag Counter