تھی۔ جس میں اُنہوں نے پاکستان میں شائع ہونے والے ستائیس نسخوں کی اغلاط شائع کی تھیں جس میں بعض اغلاط تو واقعی حیران کن ہیں ۔ ان کی یہ کوشش قابل ستائش ہے۔ کتاب کے نام میں ’تحریف‘ خطرے کا الارم ہے۔ یہ اکثر و بیشتر اغلاط ضبط اور رسم کے حوالے سے ہیں اور بعض میں شرمناک حدتک غلطیاں پائی جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور قرآنِ مجید کے حوالے سے اس قسم کے تغافل سے بچائے۔ ٭ اس تیسری جلد کے صفحہ ۸۶۳ میں ذکر ہے کہ روایت ِحفص کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت ہے اور پاکستانی مصاحف میں یہ آیت شمار نہیں کی گئی بلکہ اَنعمت علیہم پر آیت کا نشان لگانے کی بجائے صرف ۶ نمبر دے کر سورۃ الفاتحہ کی سات آیات پوری کردی گئیں ہیں ۔مجھ جیسے مبتدی کو سمجھ نہیں آئی کہ جب برصغیر میں روایت ِحفص جاری و ساری ہے تو سورۃ الفاتحہ میں اس سے علیحدہ اُسلوب کیوں رکھا گیا؟ بسم اللہ، سورۃ الفاتحہ کا جز ہے یا نہیں ؟ یہ فقہاء میں ایک اختلافی مسئلہ ہے مگر یہاں کیا یہی فقہی اثر روایت ِحفص سے انحراف کا سبب تونہیں ؟ بلکہ رموز الاوقاف میں توسورۃ الفاتحہ کی ابتدائی آیات پر ’لا‘ لکھ دیا گیا، جوسعودی مصاحف کے بھی خلاف ہے اور مسنون قراء ات کے بھی۔ بالکل یہی معاملہ سورۃ الاعلیٰ کی آیات کے ساتھ ہے اور اچھے بھلے قرا حضرات اسی کی پابندی کرتے ہیں ، آخر کیوں ؟ بعض قابل توجہ اُمور بعض باتوں کی طرف مزید اشارہ ضروری سمجھتا ہوں : 1. اسی تیسرے شمارہ کے صفحہ ۵۲۰ پرلکھا ہے : قال الإمام أحمد حدثنا یزید أنبأنا حماد بن سلمۃ عن عاصم بن أبي النجود عن أبي صالح عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((إن اﷲ اطلع علی أھل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم)) [صحیح بخاری:۳۰۰۷،۳۰۸۱] ظاہر ہے کہ یہاں ’صحیح بخاری‘ کا حوالہ بہرحال درست نہیں بلکہ یہ مسند امام احمد سے ہے اور صحابی کا نام بھی ذکر نہیں ہوسکا۔ صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور حدیث نمبر۷۹۲۷ ہے۔ |