Maktaba Wahhabi

63 - 79
تقریباً وہی استفتا اِسی ذاکر حسین، نارتھ ناظم آباد کراچی نے الجامعہ الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن بھی بھیجا جس کا جواب وہاں کے ترجمان ’بینات‘ کے شمارہ نمبر ۴/ جلد نمبر ۷۳ ربیع الآخر ۱۴۳۱ھ میں شائع ہوا۔ یہ جواب آپ کی نظر سے ضرورگزرا ہوگا۔ اُنہوں نے قراء ت کے اختلاف کو قطعی، متواتر اور اسے قبول کرنا واجب قرار دیا ہے مگر اختلافِ قراء ت پر مبنی قرآن پاک کی اشاعت کو قرینِ مصلحت نہیں سمجھا۔ اس حد تک تو بات واقعی قابل توجہ ہے۔ رسم ضبط اور فواصل کا اختلاف آپ سعودیہ میں ، پاکستان اور ہندوستان میں شائع ہونے والے قرآنِ مجید میں محسوس کرتے ہوں گے اور یہ بات بھی حرمین میں آپ کے مشاہدے میں آئی ہوگی کہ برصغیر کے اچھے بھلے پڑھے لکھے بلکہ حفاظِ قرآن بھی وہاں ہندی رسم ضبط میں تلاوت کو ترجیح دیتے ہیں اور سعودیہ میں شائع ہونے والے مصحف ِپاک میں تلاوت میں دقت محسوس کرتے ہیں ۔ اس مصلحت کا تقاضا تو یہی ہے کہ دیگر رسم ضبط و فواصل یا قراء ات پر مبنی مصحفِ پاک کو یہاں شائع نہ کیا جائے۔ حرمین میں چونکہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب سے مسلمان آتے ہیں ، وہاں ان تمام کی رعایت سے ایسے اختلاف پر مبنی مصحف شریف کی اشاعت کی گئی ہے تو اس کی گنجائش ہے یا ان علاقوں میں ان کی اشاعت درست ہے جہاں جہاں وہ رسم رائج ہے۔ آپ نے مولانا تقی عثمانی صاحب کے جواب میں جو لکھا ہے کہ برصغیر میں روایت ِحفص وغیرہ میں اختلافِ تنوع شائع شدہ ہے۔ بلا ریب درست ہے اگر اسی اختلاف کی وضاحت کے باوصف قرآنِ پاک میں تحریف یا تبدیلی کا کہیں دور دور تک شائبہ نہیں ، تومختلف رسم ضبط یا قراء ات پر مبنی مصحفِ پاک بھی اہل علم کے ہاں کسی تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔ بلکہ سعودیہ میں تو یہ شائع شدہ ہیں ، ان کی بنیاد پر عالم اسلام میں کوئی بھونچال نہیں آیا، کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ البتہ یہاں عامۃ الناس کے احوال کے تناظر میں یہ واقعی قرین مصلحت نہیں ۔ مجھے ’بینات‘کے مفتی صاحب کی یہ بات بڑی عجیب سی محسوس ہوئی ہے، جو اُنہوں نے اختلافِ قراء ات پر مبنی مصحف کی اشاعت کو کسی بڑے خطرے کی علامت قرار دیتے ہوئے کہی ہے کہ ’’کچھ بعید نہیں کہ یہ کوشش وجسارت آگے چل کر کتاب اللہ کی اَبدی حفاظت کے وعدے کو غیر مؤثر بنانے کی اسکیم کا حصہ ہو۔‘‘ (بینات:ص۶۱) حالانکہ منکرین قراء اتِ متواترہ
Flag Counter