یادیوبندی یا بریلوی تینوں مکتب ِ فکر کے اہل علم نے اپنا اپنا فریضہ ادا کیا ہے اور قرآنِ مجید کی قراء ات کے حوالے سے سبھی یک زبان ہیں ۔ جزاء ھم اﷲ أحسن الجزآء ’قراء ت نمبر‘ کی پہلی دو جلدیں ساڑھے سولہ سو صفحات پر مشتمل ہیں اور اب یہ تیسری جلد ماشاء اللہ ایک ہزار بتیس صفحات کو محیط ہے اور اس میں لکھا ہے کہ ایک جلدمزید ان شاء اللہ شائع ہوگی، یہ چاروں جلدیں علم قراء ا ت پرایک ’موسوعہ علمیہ‘ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ پاک وہند توکیا پورے عالم اسلام میں علم قراء ت کے حوالے سے اس قدر علمی مباحث پرمشتمل کسی مجموعہ یا موسوعہ (انسا ئیکلوپیڈیا) کی بھنک کبھی کان میں نہیں پڑی۔ اس موضوع پربحث و تحقیق کرنے والوں کے لیے بلاشبہ آپ کے مجلہ ’رشد‘ کا یہ نمبر رشدوہدایت کا باعث بنتا رہے گا۔ مجلہ ’رشد‘ کے حالیہ تیسرے شمارے میں حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مصحف اور اس کے رسم الخط پربڑی نفیس اور ایمان پرور تفصیل ہے۔ اسی طرح جمع قرآن اور تشکیل قراء ا ت کی تاریخ، رسم اور قراء ات کے مابین تعلق، علم الفواصل: توفیقی یا اجتہادی، قراء اتِ عشرہ کا تواتر اور سبعہ اَحرف کی تشریح، سبعہ احرف کی تنقیحات و توضیحات، جمع عثمانی رضی اللہ عنہ اور مستشرقین، کتاب المصاحف، معانی و احکام پر تجوید و ترتیل کے اثرات، قراء اتِ متواترہ کے فقہی احکام پر اثرات وغیرہ ، یہ سب مضامین بڑے خاصے کی چیز ہیں ۔ کراچی کے بقلم خود ’مفتی‘ محمد طاہر مکی کی حرکاتِ شنیعہ کا بھی اس میں خوب محاسبہ ہے۔ مگر محمد عطاء اللہ صدیقی صاحب کے قلم کی کاٹ کے سبھی معترف ہیں ۔ انہوں نے مفتی طاہر کے لَتّے لیے ہیں ، اُنہیں خوب خوب لتیھڑا، پچھاڑا اور بڑی سنجیدگی سے اس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ لیکن عرض ہے کہ قرآنِ مجید کی تعلیم تو بہرحال یہ ہے کہ ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ أحْسَنُ﴾ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ نے بھی جو مختلف قراء توں پرمشتمل قرآنِ مجید شائع کرنے پر خدشات کا اِظہار فرمایا ہے، بلاشبہ آپ نے مثبت اور مبنی برحقیقت بڑی متانت سے اس کا جواب دیا ہے۔ کیا ہی خوب ہوتا کہ اسی علمی اُسلوب پر ہمارے صدیقی صاحب بھی قائم رہتے۔ ان کی علمی شان کے یہی مناسب تھا اور اسی کی ان سے توقع ہوتی ہے۔ مدنی رسم ، ضبط اور فواصل میں پاکستان میں قرآنِ کریم کی اشاعت آپ کے علم میں ہوگا کہ ’مفتی‘ محمد طاہر کے ہاں جو استفتا ذاکر حسین کی طرف سے آیا، |