Maktaba Wahhabi

59 - 79
ہونے کے باوجود ایک جنت کی راہ ہوگی اور دوسری جہنم کی راہ۔ اس ساری بحث سے ہم یہ نتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں کہ ’کائنات پر غور وفکر‘ قرآن اور جدید سائنس کا مشترکہ موضوع ہونے کے باوجود اپنے مقاصد و مآخذ ِ علم کے اعتبار سے متضاد علوم ہیں ۔ اس طرح ’اسلامی سائنس‘ ایک ایسی چیز ہے جیسے ’اسلامی عیسائیت‘ اور اسلام اور سائنس میں مشترکہ نکات کی تلاش ایک ایسا عمل ہے جیسے اسلام اور عیسائیت میں مشترکہ نکات ڈھونڈ نکالنا کہ اصل اور بنیادی مباحث ایمانیات اور مقاصد ِحیات سے صرفِ نظر کیا جائے اور جزوی مشابہتوں کو نہ صرف تلاش کیا جائے بلکہ اُن کی بنیاد پرکل میں اتفاق بھی مانا جائے۔ الغرض ہم سائنس کو اس وقت قابل مذمت سمجھیں گے، جب اس کا مقصد موجوداتِ کائنات کو ان کے اصل مقاصد (رجوع الیٰ اللہ وتذکیر آخرت) سے پھیر کرمحض دنیوی مفادات حاصل کرنا رہ جائے۔ البتہ اصل مقاصد کے حصول اور اللہ پر ایمان کے بعد سائنس سے دنیوی تصرفات حاصل کرنے کی کوشش غلط نہ ہوگی۔ جس طرح یہ بات درست ہے کہ مسلمان بھی عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مانتے ہیں اور عیسائی بھی مگر مسلمانوں کاماننا ایمان ہے اور عیسائیوں کا ماننا کفر ہے، اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ قرآن بھی کائنات پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور جدید سائنس بھی یہی عنوان رکھتی ہے مگر قرآن کی دعوتِ فکر، خالق کائنات کی طرف متوجہ کرنے اور بعث بعد الموت کو یاد کرنے کے لئے ہے جبکہ سائنس کا مقصد ِ فکر تسخیر کائنات اور تصرف وتمتع فی الارض اور انسان کو کائنات کا حاکم وبادشاہ بنانے کے لئے ہے۔ اس ساری تفصیل کے بعد بھی کچھ لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں کہ ہم جدید سائنس کو خدا تک پہنچنے اور آخرت کی یاد کو زندہ کرنے کیلئے سیڑھی کے طور پر استعمال کریں گے تو یاد رکھنا چاہیے کہ اوّلاً اگر انسانی علم وعقل کوئی ایسی سیڑھی بنا سکنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتی جو آسمانی خزانوں تک پہنچ پاتی تو ربّ ذوالجلال والاکرام کو آسمانوں سے وحی اُتارنے کی ضرورت نہ ہوتی جیساکہ مغرب کے سائنس دان یہی سمجھتے ہیں کہ انسانی علم وعقل ہی حقائق تک پہنچنے کا حتمی ذریعہ ہے تو وہ وحی کے نور کو اپنے لئے غیر ضروری جانتے ہیں ۔
Flag Counter